٤) الطاف صاحب کے کبھی کافی قریب ہونے والے، کراچی کے سابق میئر،جناب مصطفی کمال پچھلے برس ، مارچ کے مہینے میں اچانک نمودار ہوئے اور ایک نئی پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ جناب نے ایک اور بھگوڑے سابقہ لیڈر، جناب انیس قائم خانی کے ہمراہ کافی دھواں دار تقریر فرمایی۔ عموماً ، یہ ایسی کوئی انہونی بات نہیں ہے ، بہت لوگ اپنی سیاست آپ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ البتہ جناب مصطفی کمال نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ، کچھ سنگین الزامات کی برسات کی۔ جب کے دوسرے صاحب نے لب کشائی سے گریز فرمایا۔ غالباً اس روز انیس بھائی کا چپ کا روزہ تھا۔
جناب مصطفیٰ کمال (جنھیں آج کل الطاف حسین آج کل شفقت سے ‘کمالو‘ کہہ کر پکارتے ہیں) خوب گرجے اور برسے۔ خوب اپنے محسن پر بہتان تراشی فرمائی ۔ جو اعلی ظرف لوگ ہوتے ہیں ، وہ اپنی گذشتہ رفاقت کا مان رکھتے ہوئے ، عموماً علیحدگی کی وجہ نظریاتی اختلافات کو قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نےذاتی نوعیت کے الزامات کے ساتھ ساتھ جناب الطاف حسین پر بھارتی جاسوسی ایجنسی را سے مالی معاونت لینے کا سنگین الزام بھی عائد فرما دیا۔
ٹی وی پر کچھ دن تک وہ “آئٹم نمبر” بن کر ابھرے اور سکرین پر بھی اپنی وہی باتیں دو کے پہاڑے کی طرح دہراتے رہے۔ بعد ازاں چند صحافیوں کے استفسار پر یہ کہہ کر ٹال گئے، کہ ان کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے ۔
سوچنے کی بات یہاں یہ ہے ، کہ اگر آپ کے پاس گواہان یا ثبوت نہیں تو الزام کیسا؟ ان کوبعض اوقات اکثر دیکھ کر گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ شاید، اپنی منزل مراد تک غالباً پہنچ نہ پائیں۔ گو کے انکے بلند و بانگ دعوے، غالباً اس پاک سر زمین کے لئے کچھ نئے نہیں۔ ایک بہت ہی کہنہ مشق صحافی، جن کا میں بہت احترم کرتا ہوں، انہوں نے ٹھیک ہی کہا کہ، خیابان سحر میں بیٹھ کر بنارس کالونی یا پاپوش نگر یا تین ہٹی کے باسیوں کا درد محسوس ہی نہیں کیا جاسکتا۔
خادم کے ننھے سے دماغ میں بھی یہ سوال ابھرا کہ، اگر آپ کے علم میں اگر یہ بات کچھ برس پہلے سے تھی، کہ بھارتی جاسوسی ایجنسی “را“، مال مفت بانٹ رہی تھی، تو آپ نے اس موقع پر لب کشائی کیوں نہ فرمائی ؟ جذبہ حب الوطنی کیا اس وقت بے ہوش ہو چکا تھا اور اچانک ٢٠١٦ کی مارچ میں دوبارہ بیدار ہوا ؟ یہ بات کچھ غیر متوازن ہے اور ہضم نہیں ہو پا رہی ۔اب ان کی مارکیٹ ویلیو، سکرینوں پر ذرا نیچے ہے۔ پھر بھی موصوف کو جب موقع ملتا ہے، پورے طمطراق سے اپنی پارٹی کی تشہیر فرماتے اور اپنے آپ کو ایک متبادل قیادت کا علمبردار بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا عوام نے واقعی ان کو اپنا رہبر تسلیم کر لیا ہے اِس کا فیصلہ تو اب 2018 میں اگر انتخابات ہوئے تو ہو ہی جائے گا۔
جناب محترم مصطفی کمال صاحب کے حضور ایک مؤدبانہ التماس ہے ، اگر وہ اپنی یادااشت پر ذرا زورڈالیں تو ہم سب کی طرح انہوں نے بھی پاکستانی ، بھارتی ، یا انگریزی فلمیں ضرور دیکھی ہوں گی ۔ کئی فلموں میں ایک ہیرو ، سائڈ ہیرو اور پِھر ایک ثانوی کردار ہوتا اور پِھر چند ایک ایکسٹرا ۔ اگر وہ ان تمام فلموں کو یاد کریں تو سب میں ایک قدر مشترک ہو گا ۔ فلم اگر چلتی ہے تو عموماً ہیرو کی وجہ سے ۔ خواه کسی زبان کی فلم ہو ، آج تک کوئی فلم ثانوی کردار کی کمال اداکاری کے باوجود ہٹ نہیں ہو پائی ۔
سیاست میں حقیقت اور فسانے کا ایک عجیب سا امتزاج پایا جاتا ہے ، اور عوامی تاثرات بہت اہم ہوتے ہیں ۔ بصد احترام ، یہ ناچیز کس قابل ، مگر عوامی تاثرات، اِس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ، جناب لائے ، بنائے اور بٹھائے گئے ہیں ۔ اگر جناب کو تاریخ سے کوئی دلچسپی ہو تو دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے طرح کے کردار، تاریخ میں کسی ثانوی اداکار سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے ۔ لیڈر بنائے نہیں جاتے عموماً پیدا ہوتے ہیں۔
٥) اب ذرا ذکر ٢٣ والوں کا بھی ہو جائے ۔ شومئی قسمت کہیے کہ ایک بھونڈا مذاق۔ ٢٣ اگست 2016 کو وطن عزیز میں ، ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ چند جماعتی عہدے داران نے، اپنے ہی قائد کوپہلے رخصت پربھیج دیا۔ بعد ازاں، خود ہی اپنی جماعت کے منشور میں ترمیم کی اور پِھر اس جماعت کو آسان لفظوں میں اغوا کر کے اس کے سیاہ اور سفید کے مالک بن بیٹھے ۔ سونے پر سہاگہ، اپنے ہی قائد سے لا تعلقی کا اعلان بھی کر ڈالا۔ انہوں نئے اپنی بساط میں اِس ہنگامی اقدام کی تفصیلی توجیہات فراہم کرنے کی ناکام کوششیں کی ، مگر پِھر بھی بات کچھ جمی نہیں ۔
اگر ٢٢ اگست کی گرفتاری کے بعد ، وہ استعفیٰ دے کر اپنے عہدے اور اپنی جماعت کی رکنیت سے دست بردار ہو جاتے ، تو وہ کہیں بہتر عمل ہوتا ۔ اگر وہ دباؤ میں تھے تو یہ طریقہ ان کے لیے کہیں بہتر ہوتا۔ وقتی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں خالی کر دیتے اور اس طرح سیاست اور تاریخ دونوں میں سرخرو ہو جاتے ۔ سیاست میں اُتار اور چڑھاؤ آتے ہیں اور یہ آپ کا کمال ہے کی آپ نا مساعد حالات میں کیا اقدامات کرتے ہیں ۔
جو توجیہات ڈاکٹر فاروق ستار اپنی تمام بیچارگی کے ساتھ دیتے ہوئے پائے گئے ، وہ کافی ناقص اور کمزور تھیں ۔ مثلاً ان کی اپنے قائد سے لاتعلقی نے دَر اصل قوم کو بکھرنے سے بچا لیا ۔ بصد احترام انہوں نے یہ اقدام کر کے اپنی قوم کو مزید تقسیم کر دیا ۔ جو بات انتہائی اہم ہے کہ جس طرح انہوں نے اس جماعت کے بانی کو ان کی ہی بنائی ہوئی جماعت سے خارج کیا ، اِس کی مثال سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں شازو نادر ہی کہیں دکھائی دے ۔ ایسا عموماً ہمارے ملک کے طالع آزما ، جمہوری حکومتون کو تختے اُلٹ کر کے کیا کرتے آئے ہیں ۔ بظاہر ان کا یہ قدم ، جماعت کو بچانا تھا ۔ پر بات بوگس ہے۔
کل کلاں کو اگر سید خورشید شاہ ، جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو فارغ کر دیں، یا خواجہ آصف اپنے قائد، میاں نواز شریف کو چلتا کر دیں، یا شاہ محمود قریشی، عمران خان سے لا تعلقی کا اعلان کر کے خود سربراہ بن جائیں۔ کیا ان تمام جماعتوں کے کارکنان اور ووٹر ایسا ہونے دیں گے؟ مذکورہ بالا فلموں کی مثال کے مطابق، کوئی سائیڈ ہیرو بھی آج تک فلم کے ہٹ ہونے کی ضمانت اس وقت تک نہیں ہوتا، جب تلک اصلی ہیرو اس کے ساتھ نہ ہو۔
(جاری ہے)