دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

آصف جاوید

اردو کے مستند شاعر نواب مصطفیخان شیفتہ انڈیا کے شہر جہانگیر آباد کے جاگیر دار اور فارسی و اردو کے مستند وصاحبِ دیوان شاعر تھے۔ انہوں نے ہی مولانا الطاف حسین حالی کو مرزا غالب سے متعارف کروایا تھا۔ دہلی میں ایک بہت بڑی لائبریری ان کی ملکیت تھی جسے 1857 میں باغیوں نے آگ لگا دی تھی۔ مگر پھر بھی انگریزوں نے انہیں بغاوت کے شبہ میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں ان کا جرم معاف کردیا گیا تھا، اور پنشن مقرّر ہوگئی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں ایک انکا ایک شعر مطالعہ سے گزرا تھا۔ جو ذہن پر نقش ہو گیا

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ،  دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

بعد میں اس ہی زمین اور ردیف قافیہ کی بندش میں لاتعداد غزلیں سننے کو ملی ہیں۔ شعر کا دوسرا مصرعہ اردو زبان میں ضرب المثل بن چکاہے۔ اور رائج العام ہے۔ یہی مصرعہ آج میرے کالم کا عنوان بھی ہے۔

قارئین اکرام گذشتہ ایک ماہ سے میں صاحبِ فراش ہوں۔ ادبی اور سماجی اور سیاسی زندگی معطّل ہو کر رہ گئی ہے، ذیابیطس نے اتنی شدّت اختیار کی ہے کہ اب بات بلڈ پریشر، گردے، نظرکی کمزوری اور مرضِ قلب تک پہنچ کر پیچیدہ صورت اختیار کرچکی ہے۔ کچھ دن اسپتال میں بھی رہنا پڑا، کینیڈا میں علاج معالجے کی بہترین سہولتیں مہیّا ہیں۔ ڈاکٹر ز بھی مہربان اور شفیق ہیں۔ نگہداشت اور علاج کی بدولت اب کہیں جا کر طبعیت بحال و شگفتہ ہوئی ہے۔

آج بروز اتوار مورخہ 11 جون ، 2017 ایک ماہ بعد ایک سیمینار میں شرکت کی۔ یہ سیمینار انڈین کشمیر کے پنڈتوں کی جانب سے انڈین کینیڈین ایسو سی ایشن کے پلیٹ فارم سے منعقد کیا گیا تھا۔ سیمینار کا موضوع خطّے میں امن کے پس منظر میں کشمیر کے حالات کے پیش نظر انڈیا کا کردار کے بارے تھا۔

سامعین کا تعلّق انڈین کمیونٹی سے تھا۔ سامعین میں پاکستانی کوئی نہیں تھا۔ سیمینار کے تین مقرّر تھے۔ ایک میں ، دوسرے طارق فتح صاحب اور تیسرے مہمان مقرّر انڈیا سے کینیڈا کے دورے پر تشریف لائے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے پروفیسر جناب سشیل پنڈت تھے۔ پروگرام کے ماڈریٹر نے پنڈت جی کی تقریر کے فورابعد مجھے گذارشات پیش کرنے کی دعوت دےدی ، میرے بعد آخری خطاب طارق فتح صاحب کا تھا۔

اپنی گذارشات سامعین کو پیش کرنے کے دوران شروع کے دس منٹ تو بار بار تالیاں بجتی رہیں ، سامعین میری گذارشات کو سراہتے رہے ، تالیاں بجاتے رہے۔ کیونکہ میں نے اپنی بات تقسیم ِ ہندوستان کی تاریخ سے شروع کی تھی، کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کی چڑھائی، اقوامِ متّحدہ کی قراداد ، کشمیر میں استصوابِ رائے، اور کچھ تاریخی حوالہ جات تھے ، کچھ بھی اختلافی نہیں تھا۔

مگر بات جب درمیانی مرحلے پر پہنچی اور میں نے انڈین دوستوں کو تجویز کیا کہ، پاکستان ایک حقیقت ہے، تنازعہ کشمیر کے پائیدار حل کے بغیر خطّے میں امن ناممکن ہے۔ جنگ سے کبھی بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکے گا۔ ہندوستان میں پائیدار امن ور خوشحالی، پاکستان میں پائیدار امن و خوشحالی سے مشروط ہے۔ انڈیا میں پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر تمام فریقوں (انڈیاپاکستانکشمیریوں) کے درمیان مستقل بنیادوں پر طے ہو، انڈیا کو انڈین کشمیر میں امن بحال کرنے کی کوششوں میں ریاستی طاقت و تشدّد کے استعمال کی بجائے انڈین کشمیریوں کو بہتر شہری سہولتیں، تعلیم، ہنر، روزگار کے وافر ذرائع مہیّا کرکے ہی احتجاج اور ہڑتالوں کے راستے سے ہٹا یا جاسکتا ہے۔

ریاستی طاقت کا استعمال 70 سال کرکے دیکھ لیا اور نتائج لاحاصل ہیں، اب مسئلے کا حل انڈین کشمیر میں ریاستی طاقت کے استعمال کی بجائے تعلیم و ہنر کے ذریعے ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ، اکنامک ڈیولپمنٹ اور کشمیریوں کی معاشی خوشحالی میں پنہاں ہے، پائیدار امن حاصل کرنے کے لئے، انڈیا کو چاہئے کہ وہ پہل کرے اور کشمیر سے فوجیں ہٹا کر مسئلہ کشمیر کو سیاسی، سائنسی اور معاشی بنیادوں پر حل کرنے کا سوشل تجربہ کیا جائے۔ پاکستان تو ایک عسکری ریاست ہے، انڈیا کیوں بیوقوف بن رہا ہے؟۔

بس میرا یہ کہنا خدا جانے ان لوگوں کوکیوں اتنا برا لگا ؟۔ تقریباآدھے لوگ احتجاجااٹھ کر کھڑے ہوگئے، ایک مچھلی بازار بن گیا۔ اس سے آگے کسی نے میری بات نہیں سنی، سب نے انڈین کشمیر میں پاکستان کی مداخلت اور جہادی ملّاؤں کی عفریت کا شور مچا کر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ بالآخر ماڈریٹر نے مداخلت کی اور مجھے اپنی تقریرمکمّل کئے بغیر ڈائِس پر واپس آناپڑا ۔

میرا آج کا سماجی تجربہ یہ رہا کہ مسئلہ کشمیر پر دونوں طرف برابر آگ لگی ہوئی ہے۔ نہ تو دونوں ریاستیں کچھ سننے پر تیّار ہیں، ، نہ ہی دونوں طرف کے عوام اس مسئلے پر کوئی منطقی بات سننے کو تیّار ہے۔ انڈیا اپنے قبضے پر مستحکم ہے، پاکستان اپنے قبضے پر مستحکم ہے۔ 70 سال گذر گئے، مزید 70 سال گذرجائیں گے۔ دونوں طرف کے عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم اور پسماندہ رہیں گے۔

دونوں ریاستیں ، ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، اکنامک ڈیولپمنٹ، تعلیم، صحت، پینے کے صاف پینے ، اور خوشحالی سے محروم عوام کے 70 فیصد قومی وسائل اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کی مہم جوئی ،غیر منطقی اور جاہلانہ ڈاکٹرائن کے فروغ پر خرچ کرتے رہیں گے۔ تاکہ کشمیر کے چولہے پر مفادات کی ہانڈی دھیمی آنچ پر پکتی رہے۔ اور دونوں طرف آگ برابر لگی رہے۔ جو آگ بجھانے کی بات کرے گا، ذلیل کرکے خاموش کروادیا جائے گا۔

4 Comments