تین مئی2016 کی سہ پہر خدیجہ اپنی چھوٹی بہن کو سکول سے لینے گئی تھی ۔ جب وہ اپنی بہن کے ہمراہ گاڑی میں واپس گھرجارہی تھی تو لاہور کی مشہور سڑک ڈیوس روڈ پر ہوٹل ایمبیسڈر کے سامنے اس پر شاہ حسین نامی نوجوان جو اس کا کلاس فیلو تھا،نے خنجر سے حملہ کر دیا ۔
سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ہونے والے اس حملے میں اس کے جسم کے مختلف حصوں پر 23زخم لگے ۔ حملہ آ ور کا ارادہ تو اس کو قتل کرنے کا تھا لیکن کار ڈرائیور نے جرات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ملزم کوقابو کر نے کی کوشش کی لیکن ملزم موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
جیسا کہ ایسے واقعات میں ہوتا ہے تھانے میں پرچہ درج ہوا ، پولیس نے تفتیش شروع کی ، دوران تفتیش اس نے ملزم کو شناخت کر لیا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنا چاہا لیکن اس نے سیشن کورٹ لاہور سے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی ۔ ضمانت قبل از گرفتاری کئی ماہ تک چلتی رہی کبھی ایک بہانہ تو کبھی دوسرا ، ہر تاریخ اگلی تاریخ کا پیش خیمہ ثابت ہوتی رہی۔
دراصل مسئلہ یہ تھا کہ ملزم کا باپ نہ صرف خود وکیل ہے بلکہ وکلا کی اعلی قیادت کے ایک گروپ سے قریبی طور پر وابستہ لہذا عدالتوں میں ملزم کا اثر و نفوذ زیادہ ہونے کی بدولت وہ ضمانت قبل از گرفتاری کو طول دیتا رہا ۔ آخر کار سیشن کورٹ نے ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری خارج کردی ۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملزم کو عدالت سے پولیس گرفتار کر لیتی لیکن ملزم وکلا کے ہجوم میں دکٹری کا نشان بناتے ہوئے فرار ہوگیا۔ ستمبر 2016 میں ملزم شاہ حسین نے ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے خارج کر دیا ۔ ملزم کو پولیس نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ۔ جیل میں دو ما ہ رہنے کے بعد ایک بار پھر سیشن کورٹ میں اس کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی جو جج صاحب نے منظور کر لی ۔ اب ملزم ضمانت پر رہا ہے ۔
یہ ساری کہانی ہے خدیجہ کی جو لاہور کے ایک لا کالج میں قانون کی طالب علم ہے۔ خدیجہ کی اپنے کلاس فیلو شاہ حسین سے دوستی تھی ۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ قاتلانہ حملہ سے کچھ عرصہ قبل شاہ حسین کے ناپسندیدہ رویے کی بنا پر ان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ۔ شاہ حسین ہر قیمت پر تعلقات کی بحالی چاہتا تھا جب خدیجہ نے اس کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تو اس نے اس پر قاتلانہ حملہ کردیا ۔
شاہ حسین کے والد، تنویر قریشی بھی وکیل ہیں اور پیپلز پارٹی کی وکلا تنظیم پیپلز لائرز فورم کے اہم عہدیدار ہیں ۔ وہ پیپلز پارٹی کے ایک مرحوم جنر ل سیکرٹری ، جہانگیر بدر کے دست راست سمجھے جاتے تھے اور ان کی سفارش پر ہی انہیں پارٹی کے دور حکومت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔
مقدمہ میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے کی بنا پر چیف جسٹس لاہور کورٹ منصور علی شاہ نے اس کا نوٹس لیا اور متعلقہ مجسٹریٹ جس کی عدالت میں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے کو ہدایت کی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیادپر اس کی سماعت کرتے ہوئے اس مقدمہ کا ایک ماہ میں فیصلہ کرے۔
خدیجہ کے مقدمہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ آصفہ بھٹو نے خدیجہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ خدیجہ کو انصاف ملے لیکن محترمہ آصفہ کو شائد یہ نہیں پتہ کہ ملزم کی حمایت کرنے اور خدیجہ سے ناانصافی کرنے میں پیپلز پارٹی کی وکلا قیادت پیش پیش ہے۔ آ صفہ بھٹو اگر واقعی چاہتی ہیں کہ خدیجہ کو انصاف ملے تو انھیں پیپلز پارٹی سے وابستہ وکلا کو تنبیہ کرنا ہوگی کہ وہ خدیجہ کے خلاف عدالتوں میں پیش نہ ہوں اور ساتھ ہی خدیجہ کو قانونی معاونت بھی فراہم کرنا ہوگی ۔ اگر وہ یہ نہیں کرتیں تو ان کا بیان محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں سمجھا جائے گا ۔
لیاقت علی
5 Comments