گزشتہ ہفتے میں اپنے وزیر اعظم سے ملا۔ ایک سال میں یہ وزیر اعظم سے میری دوسری ملاقات تھی۔میں نے وزیر اعظم کو پہلے سے کہیں زیادہ پر جوش،پر خلوص اور ملنسار پایا۔ اس کا مسکراہٹ اور بے تکلف انداز اپ کو محسوس ہی نہیں ہونے دیتا کا آپ دنیا کے مقبول ترین سیاست دان سے مل رہے ہیں۔
پچھلے سال جب میں وزیر اعظم سے ملا تو وہ نیا نیا منتخب ہوا تھا۔کینیڈا کے اندر تو وہ مقبولیت کے عروج پر تھا لیکن یہ مقبولیت ابھی تک اپنی گلی کا موڑ مڑ کر عالمی نہیں ہوئی تھی۔اور اب تو یہ عالم ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں ٹرکوں پر ان کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔اور یہ شاید پہلے مغربی رہنما ہیں جن کو پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام طور پر مغرب دشمن جذبات بھڑکتے رہتے ہیں ایسی مقبولیت ملی ہے۔اور یہ صر ف پاکستان کی ہی بات نہیں دنیا کہ ہر ملک میں جسٹن ٹروڈو کسی بھی اور عالمی سیاست دان سے زیادہ مقبول ہیں۔
میں گزشتہ اکتوبر میں انگلستان گیاتھا۔وہاں ایک محفل میں کچھ دیسی نوجوان لڑکے لڑکیوں سے ملاقات ہوئی جو انگلستان میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے۔جب ان کو پتہ چلا کہ میں کینیڈا سے آیا ہوں تو انہوں نے بڑے جوش سے مجھے بتایا کہ آپ کا وزیر اعظم بہت کول ہے۔۔اتفاق سے میرے آئی فون پر میری وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کی تصویر تھی۔میں نے ان کو یہ تصویر دیکھائی۔ یہ تصویر دیکھ کر وہ خوشی سے اچھل پڑے اور میرے ساتھ ایسے تصاویر بنائیں جیسے میں ہی وزیر اعظم ہوں۔
ایسا میں نے سوئٹزرلینڈ میں بھی دیکھا۔ مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں شرکت کے لیے میں جنیوا میں تھا۔ اس اجلاس میں میں نے لائرز واچ کینیڈا کی طرف سے شرکت کی۔اجلاس کے بعد کئی لوگ مجھے ملے اور بتایا کہ وہ ہمارے وزیر اعظم کے فین ہیں۔یہ سنجیدہ لوگ تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگر دنیا میں جسٹن ٹروڈو جیسے حکمران ہوں تو دنیا ایک مختلف جگہ ہو۔یہ سب دیکھ کر مجھے عجیب سافخر محسوس ہوا۔میرا دل خوشی سے بھر گیا۔اس کے ساتھ ساتھ مجھے تھوڑا سا احساس تاسف بھی ہوا کہ جن انتخابات میں جسٹن ٹرادو منتخب ہوئے ان انتخابات میں میری ہمدردیاں نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف تھیں۔
اس جھکاؤ کی وجہ جیک لٹن مرحوم تھا۔یہ شخص شائد پہلا مین سٹریم لیڈر تھا جسے میں نے اپنا لیڈر مانا تھا۔ انتخابات سے پہلے سارے پول اس کے حق میں تھے۔بائیں بازوں کا یہ نابغہ روزگار مدبر اگر زندہ رہتا تو کینیڈا کا گلا وزیر اعظم ہوتا۔بد قسمتی سے وہ عین اس وقت کینسر جیسے موزی مرض کا شکار ہو کر چل بسا جب وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھا۔ ہماری شروع سے تربیت اور اٹھان ہی ایسی ہے کہ ہم حکمرانوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ان سے مل کر ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوتی۔اور ان کی محفل میں ہمیں بے چینی سے محسوس ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی کے تیس سال لوٹ کھسوٹ کے راج پر مبنی سماج میں گزارے۔جہاں پے در پے آمریتیں دیکھیں۔ ان آمریتوں کے زیر اثر سرکاری طاقت او رتبے کا ناجائز استعمال دیکھا، حکمرانوں کی گردن میں پڑا ہوا سریا دیکھا، نمود و نمائش، پروٹوکول اور ہوٹر دیکھے، جاگیرداری اور سرداری نظام اور ان کا غرور و تکبر دیکھا۔ ان سب چیزوں نے مل کر ہماری ایسی نفسیاتی ساخت تشکیل دی کہ ہمیں طاقت اور طاقت وروں سے گھن انے لگی۔مگر جیک لٹن جیسے ترقی پسند اورجسٹس ٹرودو جیسے لبرل سے ملنے کے بعد ہماری نفسیاتی تحلیل ہوئی۔حکمرانوں کے بارے میں ہمارے روئیے اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ۔اور پہلی بار ہمیں یقین ہوا کہ حکمران بھی سچے ترقی پسند اور لبرل ہو سکتے ہیں۔وہ عوام کے سچے خدمتگار بھی ہو سکتے ہیں۔
جسٹن ٹروڈو صرف کہنے کو نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک ڈاون ٹو ارتھ نامور شخصیت ہے۔وہ اگر وزیر اعظم نہ بھی ہوتے تو پھر بھی ان کا سماجی قد کاٹھ بہت بڑا تھا۔ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہونے کے علاوہ اس کے خاندان اور دور کے کزنز میں نامور شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے۔اس فہرست کے کچھ ناموں میں ہیلری کلنٹن، کنیڈین سنگر جسٹن بیبر، کنیڈین سنگر سیلن ڈیان، میڈونا سمیت کئی مشہور اداکار اور فنکار شامل ہیں۔
جسٹس ٹروڈو صرف خیالات کے اعتبار سے ہی ایک لبرل اور ترقی پسند ادمی نہیں، عملی طور پر بھی ایسے ہیں۔ انہوں نے کینیڈا کے اندرونی اور خارجہ امور پر مشکل حالات میں مشکل سوالات پر ایک اصولی ، ترقی پسندانہ اور ازاد خیال موقف اپنایا ہے۔ ہماری یہ دنیا اس وقت دائیں بازوں کے سخت گیر قسم کے متعصبانہ نظریات اور کسی حد تک پاگل پن کی گرفت میں آتی جا رہی ہے۔ ایسے میں عالمی سیاست میں جسٹن ٹروڈو جیسے لیڈروں کی سخت ضرورت ہے۔
♠