پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے مرکزی شہر پارا چنار میں ہونے والے دو دھماکوں کے بعد ہونے والا احتجاجی دھرنا گذشتہ چار روز سے جاری ہے۔دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے وہ دھرنا جاری رکھیں گے۔اُن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہلاک شدگان کے لیے کوئی تعزیتی بیان تک جاری نہیں کیا۔
مظاہرین نے اس بات پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا کہ وزیراعظم نواز شریف سانحہ بہاولپور کے پسماندگان سے تعزیت کے لئے لندن سے براہ راست وہاں پہنچے لیکن پاراچنار کے دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے کوئی بیان تک نہیں دیا۔
خیال رہے کہ جمعے کی شام پارا چنار میں کڑمان اڈہ کے قریب ہونے والے ان دو دھماکوں میں 60 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دھرنے کے منتظم ثاقب بنگش نے بتایا کہ ’27ویں رمضان سے یہ دھرنا مسلسل جاری ہے اور جب تک ان کے مطالبات سنے نہیں جاتے یہ دھرنا جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری برداشت ختم ہو چکی ہے، ہر مہینے دھماکہ، ہر مہینے سو ہلاکتیں، اتنا بڑا علاقہ تو نہیں جس کو سکیورٹی نہ دی جا سکے۔سکیورٹی کے اتنے بڑے دعووں کے نتیجے میں ہمیں سو لاشوں کا تحفہ مل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نواز شریف کو تو یہ اندازہ بھی نہیں ہے کہ پاڑہ چنار پاکستان میں ہے یہ کسی دوسرے ملک میں۔
ثاقب بنگش کا کہنا تھا کہ ‘کور کمانڈر آئے تھے اور ہمیشہ کی طرح صرف یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ کے مطالبات پورے کیے جائیں گے، تاہم آج تک ایسا نہیں ہوسکا ہے‘ ۔‘اب تک 11 دھماکے ہو چکے ہیں، یہ کوئی تیسری دنیا سے آکر تو نہیں کرتا، آخر یہ دھماکے کرنے والے پاکستان میں موجود ہیں۔
ثاقب بنگش نے بتایا کہ جب تک اس علاقے کی سکیورٹی کا ذمہ مقامی لوگوں کو دیا گیا تھا سب ٹھیک تھا تاہم ان کے بقول جب سے ‘ہم سے سکیورٹی لی گئی ہے تو ایسے مسائل روز ہو رہے ہیں‘۔
انھوں نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو لاکھوں روپوں کی امداد کا اعلان کیا جاتا جبکہ پارا چنار میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے اواخر میں پارا چنار میں خواتین کی ایک امام بارگاہ کے نزدیک بم دھماکے میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
جبکہ رواں سال جنوری میں پارا چنار میں سبزی منڈی کی عیدگاہ مارکیٹ کے قریب والے دھماکے میں بھی کم از کم 24 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوئے تھے۔
عوام اس بات پر مشتعل ہیں کہ پاراچنار میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود بھی دھماکے ہوئے جبکہ پاراچنارکے عوام کو اس سکیورٹی کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں کے ہر رہائشی کو سکیورٹی چیک پوسٹ پر سخت تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔جبکہ دہشت گرد کیسے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پارا چنار میں ہونے والے دھماکےسیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ۔ظاہر کرتے ہیں لیکن میڈیا اس پر بات کرنےکو تیار نہیں
واضح رہے کہ ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔ لشکر جھنگوی پاکستانی ایسٹیبشلمنٹ کی گڈ بکس میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا نہ تو سیکیورٹی اداروں پر کوئی دباؤ ڈال سکتا ہے اور نہ ہی لشکر جھنگوی کی سرگرمیوں کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔
سینیئر صحافی اور افغان اُمور کے ماہرطاہر خان نے اس معاملے پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس طرح کے واقعات کے بعد سیکیورٹی اداروں کے بارے میں بات تک نہیں کرتے حالانکہ میڈیا میں ہر دوسرے حکومتی ادارے کے حوالے سے روزانہ گفتگو کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں پر میڈیا کی جانب سے دوسرے اداروں کی طرح کوئی دباؤ نہیں ہے۔
پاکستانی میڈیا تو خاموش ہے لیکن سوشل میڈیا میں اس پر کھل کر تبصرے ہورہے ہیں ۔ معروف بلاگر وقاص گورایہ لکھتے ہیں کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں اپنے ہی عوام پر گولیاں، دانشوروں کا قتل عام، ڈھاکہ یونیورسٹی میں دانشوروں کی ایک پوری نسل ختم کر دی گئی۔ سندھ میں یہی کام ہو رہا، بلوچستان میں اغوا اور قتل عام اور پھر ہیلی کاپٹر سے لاشیں پھینکنے کا سلسلہ، گمنام قبریں تو بے تحاشا مل چُکی ہیں۔ پارا چنار میں فوج کا عوام پر فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں، ایسے واقعات ماضی میں پارا چنار میں بھی ہو چکے اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں بھی۔ دو دن پہلے کرنل عُمر نے گولی چلا کر چار افراد کو قتل کیا اور سات شدید زخمی۔
ان کا کہنا ہے کہ پارا چنار سے شروع ہونے والے مظاہرے اسلام آباد اور غیر ممالک میں بھی پہنچ رہے۔مگر میڈیا پورا سچ نہیں بتارہا۔پاکستان کی غیور فوج کی اپنوں پر گولی چلانے کی ستر سال کی تاریخ ہے۔ دنیا کے کسی جنگی علاقے میں یہ سب ہو تو ان کاموں کو جنگی جرائم کہا جاتا۔ مگر جب اپنی ہی ریاست کے ادارے اپنے ہی شہریوں کے ساتھ یہ کریں تو اسکو صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہا جاتا۔یہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، جنگی جرائم ہیں، جہاں ہماری اپنی فوج ہمیشہ سے ہمارے خلاف حالت جنگ میں ہے۔
DW/BBC/News Desk
One Comment