کوئٹہ اور پاڑہ چنار میں بم دھماکوں جس میں 85 افراد ہلاک ہوئے تھے کہ بعد احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر کو آگ لگنے کے نتیجے میں 148افراد جل کر راکھ ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق بہاولپور کے قریب احمد پور شرقیہ میں ایک تیز رفتار آئل ٹینکر موڑ کاٹتے ہوئے الٹ گیا۔ اِس کے الٹنے کے بعد بکھرنے والے پٹرول میں آگ لگ گئی اور اُس آگ نے قریبی علاقے کو اپنی لیٹ میں لے لیا۔ اس آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر کم از کم 148 افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ کئی لاشیں اس حد تک جل چکی ہیں کہ اُن کی شناخت بھی ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جب آئل ٹینکر الٹا تو اس میں موجود تمام تیل بہہ گیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں سے تیل اکٹھا کرنا شروع ہوگئی اس دوران کسی نے سگریٹ سلگایا جس کی وجہ سےوہاں آگ بڑھک اٹھی۔
آگ کی لپیٹ میں آنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جو قریب ہی رہتے تھے اور پٹرول اکھٹا کرنے کے لیے وہاں پہنچے تھے لیکن آگ لگنے کے کچھ دیر میں ہی آگ کے شعلوں نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ زخمیوں اور جلی ہوئی لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق آگ کی لپیٹ میں آ کر کم از کم چھ کاریں اور ایک درجن موٹر سائیکل بھی جل کر تباہ ہو گئی ہیں۔ امدادی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
سن 2015 میں ایسے ہی ایک حادثے میں باسٹھ افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ خواتین اور بچوں سمیت یہ افراد بس اور آئل ٹینکر کی ٹکر کے بعد لگنے والی آگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ پاکستان کے سماجی حلقے ملکی سڑکوں کو موت کی گزرگاہوں سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ان پر تیز رفتار بسیں، ٹرک اور موٹرکاریں انسانی جانوں کی پرواہ نہیں کرتی ہیں۔
پاکستان میں اس طرح کے حادثے معمول ہیں۔ حکام کی طر ف سے ایک دو دن افسوس اور مذمتی بیان جاری کیے جائیں گے اور حالات پھر نارمل ہو جائیں گے۔ ایسے حادثے ہوتے ہیں لیکن اگر ریاست کا نظام درست ہو تو ایسے حادثوں کی شدت کم ہو سکتی ہے۔ لیکن ریاست کی ترجیحات میں عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بجائے قوم کو جنگجو بنانے اور جنگی ہتھیاروں کے ڈھیر لگانے میں ہے۔
پاکستان جیسے جنگجو ملک میں ترقی کا تصور بھی انوکھا ہے۔ ترقی چند بڑے شہروں تک محدود ہوتی ہے اور چھوٹے شہروں سے نقل مکانی کی وجہ سے چند سال بعد یہی ترقیاتی کام ناکافی ہوجاتے ہیں۔تعلیمی اداروں یا ہسپتالوں کا قیام اور سڑکوں کی تعمیر پورے ملک میں یکساں ہو تو پھر عوام کے مسائل کم ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی قدرتی آفت یا اچانک حادثے کے بعد ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ غربت کے شکار عوام کی زندگیاں ہی بچا لیں۔حکمران امدادی رقوم کا اعلان کرکے بری الذمہ ہو جاتےہیں جو اول تو ان کو ملتی ہی نہیں اور مل بھی جائیں تو اس سے ان کو پہنچنے والے نقصان کا مداوا نہیں ہو سکتا۔
کچھ خوشحال قسم کے شہری بابوؤں کے خیال میں اس حادثے کی وجہ عوام کی شغل میلہ کی نفسیات، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کام کرنا اور مفت دل بے رحم کی پالیسی ہے۔جو کہ سراسر غربت کے مارے عوام کی توہین ہے۔ ایک ریاست جو نہ صرف عوام کے بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہو چکی ہو بلکہ ان کی حفاظت کرنے کے نام پر عوام کو غریب رکھ کر ان کے جان و مال کا تحفظ نہ کر سکتی ہو اور بجائے ریاست کو الزام دینے کے اس کا الزام عوام کو دینا، نہ صرف ان کی غربت کا مذاق اڑانے بلکہ ہلاک ہونے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
DW/News Desk
One Comment