پاڑہ چنار اورکوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 85 ہوگئی ہے۔یہ دھماکے انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہیں۔ریاستی ادارے کمال ڈھٹائی سے سرحدپار کے دہشت گردوں کا نام لے کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔وزیراعظم مکہ معظمہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار خاموش ہیں ۔سوشل میڈیا میں بم دھماکوں پر جو تبصرے ہورہے ہیں وہ پاکستانی میڈیا میں نہ نشر ہو سکتے ہیں اور نہ شائع۔
ایک دوست نے لکھا کہ ہم پچھلے کئی برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ
دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیا نی اپریل2011
دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جنرل راحیل شریف اکتوبر 2014
دہشت گرد ہمارا عزم متزلزل نہیں کر سکتے۔جنرل قمرجاوید باجوہ جون 2017
جرنیلوں کے ان دعووں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت جھوٹ بولنے میں سیاستدانوں سے کم نہیں ۔
ایک دوست نے لکھا کہ دہشت گرد ہمارے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔جناب بیان کی حد تک تو بات درست ہے لیکن آپ کا عزم ہے کہاں اور اس کا عملی اظہارکہاں ہو رہا ہے۔ اس بارے جاننا پاکستان کے عوام کا حق ہے۔ ہزاروں سویلین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو محض دشمن کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ یہ دشمن کون ہے اس کی نشاندھی ہونی چاہیے۔ یہ نامعلوم نہیں یہ ہمارے ارد گرد موجود ہے اور قابل شناخت ہے۔ صرف دشمن کہہ کر اس کی شناخت چھپانے کی کوشش نہ کریں۔
ہمارے میڈیا کے لئے کیپٹن صفدر کی جےآئی ٹی کے روبرو پیشی بڑی خبر ہے نہ کہ پارا چنار، کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے درجنوں افراد کی خبر۔ وہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ کیپٹن بڑے گھر کا داماد ہےایسا گھر جہاں سے اشتہارات اور مراعات کی شکل میں بہت کچھ ملتا اور مل سکتا ہے۔ دہشت گرد حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین تو ہمارے میڈیا کو آہوں، سسکیوں اور رونے پیٹنے کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں اور یہ چیزیں ہمارے میڈیا کو نہیں چاہئیں کیونکہ ان میں کچھ گلیمر نہیں ہے۔
ایک دوست لکھتے ہیں کہ پاکستان کے تین شہروں میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور لوگ مزے سے عید کی شاپنگ میں مصروف ساتھ عید مبارک کے میسج بھی بھیج رہے۔ نواز شریف بیرون ملک بیٹھے ہیں حسب روایت، اور ہر دھماکے کی طرح سکون سے ذمہ داری بھارتی ایجنسی راء پر ڈال کر یلغارفلم کی لانچنگ کی مشہوری کی جارہی ہے ۔
ایک خودکش بمبار کسی دوسرے شہر ، صوبے یا ملک سے چلتا ہے، تمام سیکیورٹی چیک پوسٹس کراس کر کہ ہدف پر پہنچ کر پھٹ جاتا ہے اور پھر ٹی وی پر حملہ ناکام بنا دیا کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ریاست کی نالائقی سے مرنے والوں کو شہادت کے غلاف میں لپیٹ کر شہادت کا میڈل گھر والوں کو تھما دیا جاتا کہ رو مت، غصہ مت کرو ُتمہارا بچہ، بھائی، بہن، ماں، باپ یا جو بھی رشتہ تھا وہ شہید ہوا۔
شہادت کا لالی پاپ نا صرف خاندانوں اور احباب کا غصہ ٹھنڈا کرتا ہے بلکہ نالائق چوکیدار کی طرف اٹھنے سے انگلی بھی روکتا ہے۔وہ دن دور نہیں جب شہادت کے تمغے کے ساتھ شکریہ بھی وصول کیا کریں گے کہ دیکھو ہماری وجہ سے تمہارے بندے یا بندی کو شہادت اور جنت نصیب ہوئی ہے۔
اس صورت حال پر کیا بھی کیا جائے سوائے رونے کے۔ عید گاہیں بھی ویسے آباد ہونگی اور چاند راتیں بھی ۔ اس میں لوگ کہتے کہ اچھا ہے قوم غم میں بھی مسکراتی مگر اسکا دردناک پہلو یہ کہ قوم بے حس ہو چکی، اسکو کسی کے مرنے کا دکھ نہیں، کسی کے اجڑنے کا دکھ نہیں، یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ دہشت گردی اور لاشیں گرنے کے باوجود لوگ پاگلوں کی طرح آس پاس اور انسانیت سے بے نیاز جشن میں مصروف رہتے ہیں۔
♦