ایمل خٹک
جب سے افغانستان میں تحریک طالبان وجود میں آئی ہے تو شروع دن سے پاکستان پر اس کی حمایت کا شک کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے بعض ریاستی اداروں پر افغان طالبان کی حمایت کا شک کرنے کی وجوہات اس پر شک نہ کرنے سے بہت زیادہ ہے۔ اس طرح ریاستی دعوے اور بیانات ایک طرف مگر شک کی گنجائش پیدا کرنے والے عوامل اور وجوہات بہت زیادہ ہیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو حمایت کا الزام شک نہیں رہا بلکہ اب یہ شک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے ۔
مثال کے طور پر ناقابل تردید شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی جو مُلا عمر کی پاکستان میں ہلاکت یا اس کے جانشین مُلا اختر منصور کی رسم تاجپوشی کی تقریب یا بعد میں اس کی ڈرون حملے میں ہلاکت یا افغان طالبان کے موجودہ سربراہ مُلاہیبت اللہ کی تاجپوشی ان راہنماوں کی پاکستان میں تحریکی سرگرمیاں اور رہائش ثابت کرتی ہے۔
اس طرح پچھلے دنوں طالبان کے فنڈ ریزنگ کمیٹی کے سربراہ مُلا متین اور طالبان خارجہ تعلقات کے ایک اہم رکن مُلا داؤد پاکستان میں مارے جاچکے ہیں۔ غرض ماضی میں بہت سے دیگر حوالوں سے بھی کئ سینئر طالبان راہنماوں کی موجودگی کی خبریں میڈیا میں چھپتی رہی ہیں ۔
ان شواہد کی موجودگی میں افغان طالبان کو پناہ فراہم کرنے یا حمایت سے انکار بہت بیہودہ قسم کا جھوٹ معلوم ہوتا ہے ۔اب طالبان کی حمایت کی اس سچ کو بے بنیاد اور بلند بانگ دعووں اور جھوٹی یقین دہانیوں سے چھپایا اور جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے کس سے بولا جا رہا ہے ؟ آیا ہم افغانستان کو یا بیرونی دنیا کو یہ بتلانا چاہتےہیں ورغلانا چاہتےہیں ؟ نہیں ان کو تو ہم سے زیادہ حقائق اور معلومات ہیں۔ یہ جھوٹ صرف اور صرف پاکستانی قوم سے بولا جا رہا ہے ۔ تاکہ غلط اور تباہ کن ریاستی پالیسی کو جواز فراہم کیا جائے ۔ اور عسکریت پسندوں کی حمایت جاری رکھا جاسکے ۔ شورش زدہ علاقوں کے لوگوں کو سب پتہ ہے کہ کون کیا گیم کھیل رہا ہے البتہ ملک کے باقی حصوں میں ابھی تک تذبذب کی فضا ہے ۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے پہلےہفتے میں افغانستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات جس میں تین سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے نے افغان طالبان اور اس کی علاقائی حمایت کے مسئلے کو دوبارہ اجاگر کیا ۔
اگر ایک طرف افغان سیکورٹی حکام نے حالیہ واقعات کی ذمہ داری حقانی نیٹ ورک ، طالبان اور پاکستانی ایجنسی پر ڈالی تو دوسری طرف افغان طالبان اور ان کے حامی مقامی عسکریت پسندوں کی افغانستان وغیرہ میں جہاد کیلئے چندہ جمع کرنے کی سرگرمیوں کی خبریں اور اطلاعات بھی سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
جب سے پاکستان میں عسکریت پسندی کا ظہورہوا ہے ۔ چاہے افغان طالبان ہو یا پاکستانی عسکریت پسند ان سب کے لئے رمضان کا مہینہ فنڈ جمع کرنے کے حوالے سے ایک اھم مہینہ ھوتا ہے۔ اس اسلامی مہینے میں فنڈز جمع کرنے کی مہم زوروں پر ہوتی ہے ۔ اب بین الاقوامی دباؤ اور داخلی مشکلات کی وجہ سے جہاد وغیرہ کیلئے چندہ جمع کرنے پر حکومت نے بظاہر پابندی عائد کی ہے ۔ مگر ملک کے مختلف حصوں میں ریاستی اداروں کے ناک تلے عسکریت پسندوں کی چندہ مہم کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہتی ہے ۔
عسکریت پسندوں کی جہادی سرگرمیوں کی خبروں کو مین سٹریم میڈیا اکثر نظرانداز کرتا ہے جبکہ یہ خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر آجکل دو اہم چیزیں زیر گردش ہیں ایک ضلع دیر کی ایک مسجد میں عسکریت پسندوں کی جانب سے چندہ جمع کرنے کی مہم کی ویڈیو اور دوسرا افغان طالبان کی ژوب میں فنڈز جمع کرنے کے حوالے سے سرگرمیوں کا ایک خط ۔ ویڈیو میں جیش محمد کا ایک عسکریت پسند افغان اور کشمیری مجاہدین کیلئے چندہ مِانگ رہا ہے ۔
جبکہ خط سے جو مولوی اللہ داد خطیب جامع مسجد ژوب کی جانب سے علاقے کے دیگر علماء کو لکھا گیا ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی مالیاتی کمیشن کے سربراہ مُلا عبدالمنان نے ژوب میں علماء سے چندہ جمع کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے اور خط سے مُلا عبدالمنان کی بلوچستان میں موجود ایک مہاجر کیمپ میں رہائش ثابت بھی ہوتی ہے۔ خط سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان کیلئے ماضی میں بھی اس علاقے سے چندہ جمع کیا گیا ہے۔ خط کے مطابق دو جون 2017 یعنی بروز جمعہ کے خطبات میں علاقے کے تمام مساجد میں افغان جہاد کی حمایت میں بات اور افغان طالبان کیلئے چندہ جمع کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
گزشتہ جمعے کے دن ژوب اور علاقے کے دیگر مساجد میں چندہ بھی جمع کیا گیا اور جہاد کی فضلیتیں بھی بیان کی گئ جبکہ حالیہ دنوں افغانستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں سینکڑوں شہید معصوم مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف معلوم ہوا ہے کہ ژوب کا مذکورہ مُلا جس کا تعلق مُلا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علماء اسلام سے بتایا جاتا ہے سرکاری ملازم اور مسجد کا خطیب ہے۔ مُلا اللہ داد نے ایک بیرونی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں گزشتہ جمعے کو بلوچستان کی مساجد میں چندہ جمع کرنے اور جہاد کے حق میں بات کرنے کی تصدیق بھی کی ہے ۔
اگر افغان طالبان یا گڈ یا بیڈ طالبان کی پالیسی واقعی ملک و قوم کی مفاد میں ہے تو اس کو چھپانے یا اس پر شرمانے اور کھلم کھلا جھوٹ بولنے کی تُک سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ کیونکہ ریاستی اداروں کی افغان طالبان سے تعلقات اور ان کی حمایت اتنی آشکارا اور ننگی ہے کہ جھوٹ چاہے جتنا بھی بولا جائے گھڑا جائے چھپنے سے نہیں چھپتا ۔ چونکہ عسکریت پسندی کے حوالے سے ملک میں ایک عمومی نفرت موجود ہے اور عوام نے عسکریت پسندی کے ہاتھوں بہت تباہی اور بربادی دیکھی ہے اسلئے طالبان کے ساتھ تعلق کو کسی طور جائز ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔
سب کو پتہ ہے کہ کئی نامی گرامی بیڈ طالبان کہلانے والے عسکریت پسندوں نے ریاستی اداروں کے زیر کنٹرول تربیتی کیمپوں میں عسکری تربیت حاصل کی ہے اور عرصہ دراز تک ریاستی اداروں کی حمایت اور سرپرستی کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ اکثر مقامی طالبان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی آمریت کی امریکہ نواز پالیسوں اور بعض دیگر وجوھات کی وجہ سے علم بغاوت بلند کیا۔
مختلف پاکستانی طالبان گروپوں کی ترجمانی کرنے والے احسان اللہ احسان جنہوں نے اکثر بڑے بڑے دہ شت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی کے کیس نے اس ڈھونگ کی پول کھل دی ہے ۔ جس طریقے سے اس کی پذیرائی کی گئی ہے اور اسے بطور ایک قومی ہیرو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گی اور قوم نے جس غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور جس طریقے سے اس ڈرامے کو رد کیا اس سے عسکریت پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ریاستی اداروں کی آنکھیں اب کھل جانی چاہیں ۔
پاکستان کی موجودہ سفارتی تنہائی اور مشکلات کی کئی وجوھات ہو سکتی ہیں مگر عسکریت پسندوں کی حمایت یا بیڈ اور گُڈ طالبان کی پالیسی ان میں سے ایک اہم وجہ ہے ۔ دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور انڈیا سے معمول کے سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں ۔ اور مذاکرات عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے اور علاقے میں عسکریت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی کے بغیر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ۔
ایران نے حال ہی میں سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے 26 اپریل 2017کے سنگین واقعے کے بعد جس میں نو ایرانی سرحدی محافظین کو مارا گیا تھا ہاٹ پرسوٹ یعنی عسکریت پسندوں کی پاکستان کے اندر سرگرم تعاقب کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ایران میں دہشت گرد حملے بند نہیں ہوئے تو عسکریت پسندوں کو پاکستان کے اندر نشانہ بنایا جائیگا ۔ سفارتی تعلقات میں ایسی دھمکیاں شاذو نادر دی جاتی ہے اور دو ممالک کے تعلقات میں ایسی باتیں عموما ایک بہت ہی ناخوشگوار اور انتہائی قدم تصور کیا جاتا ہے۔
ایران عرصہ دراز سے الزام لگا رہاہے کہ سرحدی علاقوں سیستان میں سرگرم عمل سُنی عسکریت پسند جو پہلے جنداللہ اور اب جیش العدل کے نام سے متحرک ہیں کے اہم راہنما اور ان کے مراکز پاکستان میں موجود ہیں اور وقتا فوقتا باہر سے گھس کر ایران میں دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔ ایران مخالف سُنی عسکریت پسند راہنما عبدالمالک ریگی کی گرفتاری سے پہلے جنداللہ کے اہم مراکز پاکستان میں تھے اور اس کی گرفتاری کے بعد جنداللہ کے کچھ لوگوں نے جیش العدل بنائی ۔ ایرانی حکام شک کر رہے ہیں کہ جیش کے مراکز پاکستان میں ہیں۔ ماضی میں اس طرح بھی ہوا ہے کہ ایرانی سرحدی محافظین کو اغوا کرکے پاکستان لایا گیا تھا اور پاکستانی حکام نے ان کو چھڑا کر ایران کے حوالے کیا تھا۔
سفارتی تعلقات میں پڑوسی ممالک کی اپنی اہمیت اور مقام ہے ۔ سرحدی تنازعات اور تعلقات میں مسائل کے باوجود شاید اب بہت کم پڑوسی ممالک ایسے ہونگے جن کے آپس کے تعلقات اتنے گھمبیر اور پیچیدہ ہوں جتنا پاکستان کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ اب سفارتی تعلقات میں علاقائی تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانے کا رحجان ہے ۔ علاقائی رقابتوں اور اختلافات کی وجہ سے اگر کسی خطے میں پراکسی جنگیں ہیں بھی تو وہ اتنے بھیانک اور خون ریز نہیں جتنی ہمارے علاقے میں ہیں ۔ مہذب اقوام اپنے اختلافات اور اثرورسوخ اور برتری کیلئے جنگ اب فوجی ذرائع سے کم بلکہ سیاسی اور تجارتی تعلقات کے ذریعے لڑتی ہیں ۔
اگر چار پڑوسیوں میں سے تین اپنے مسلح مخالفین کی حمایت کا برائے راست الزام پاکستان پر لگا رہے ہیں اور چوتھے یعنی چین کے مسلح مخالفین ماضی قریب تک پاک۔ افغان سرحدی علاقوں میں موجود تھے اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے بلکہ ادھر اُدھر ہو گئے ہیں معاملات کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے یہ صورتحال کسی طور پر بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔
پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے سنگین واقعات دشمنی اور مخاصمت کے جذبات کو عوامی سطح پھیلا رہی ہے اور انڈیا کے بعد اب افغانستان میں بھی پاکستان مخالف جذبات زوروں پر ہے ۔ اس کیلئے صرف علاقائی حریفوں کو موردالزام ٹھہرانا اور حالات کو خراب کرنے کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو مبرا کرنا چالاکی تو ہو سکتی ہے دانشمندی نہیں ۔ سب سے اولین اور زیادہ ذمہ داری پاکستانی پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے پھر دوسروں پر ۔ افغانوں میں بڑھتے ہوئے پاکستان مخالف مخاصمانہ جذبات کی بنیادی وجہ پاکستان کی افغان پالیسی ہے ۔ مخاصمانہ جذبات کی ایک وجہ طالبان کو پناہ دینا اور افغانستان میں ان کی پر تشدد سرگرمیاں ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہلا ک ہو رہے ہیں ۔
اس طرح ایران میں بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور ایران مخالف جیش العدل جیسے تنظیموں کی موجودگی کی وجہ سے نفرت اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔ مشرق وسطی میں نئی سٹرٹیجک صف بندیاں اور ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وارز میں ممکنہ اور متوقع اضافے کا اثر لا محالہ پاکستان پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں میں کٹر سُنی مذھبی خیالات کی موجودگی اور نفوذ اور مضبوط سعودی لابی کے پیش نظر ایران اور پاکستان کے تعلقات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔
اسلئے اگر ابھرتے ہوئے سٹرٹیجک چیلنجوں کا درست ادراک نہیں کیا گیا اور اس کیلئے مناسب منصوبہ بندی اور پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی گئی تو پاکستان کے داخلی اور خارجی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس کیلئے پالیسی سازوں کو عسکریت پسندوں سے مکمل قطع تعلق کرنا چائیے ۔ گُڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور عسکریت پسندی کو ایک پالیسی ذریعے یا ہتھیار کے طور پر استعمال تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔
اس پالیسی نے پاکستان کو سفارتی تنہائی کے ساتھ ساتھ اندرون ملک نہ ختم ہونی والی دہشت گردی سے دوچار کردیا ہے ۔ہمسایوں کے بہتے خون پر خوش ہونا انتہائی حماقت ہے ۔ ہمسایوں کو ڈسوانے کیلئے سانپ تو پالے مگر اب وہ سانپ ہمیں بھی ڈس رہا ہے ۔
♣
One Comment