پاکستانی ریاست افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتی ہے تاکہ وہ اس خطے میں بھارت کا اثرو رسوخ ختم کر سکے۔اس مقصد کے لیے پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ طالبان، حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید، صلاح الدین، مولانا مسعود اظہر جیسے دہشت گردوں کو اپنا سٹریٹجک اثاثہ قرار دیتی ہے اور انہیں ہر قسم کی تربیت اور لاجسٹک سپورٹ مہیاکرتی ہے۔
واضح رہے کہ خطے میں بھارت کے اثرو رسوخ کو لگام دینے کے لیے پاکستان کو درپردہ چین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یاد رہے کہ کچھ ماہ پہلے ہی چین نے سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔
اسے شاید اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے تو دوسری طرف ان ہی مجاہدین کی جانب سے افغانستان میں خودکش حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ جس انداز سے ہزاروں افراد کے قاتل و دہشت گرد احسان اللہ احسان کو پاکستانی میڈیا میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان ابھی تک طالبان کی پرورش کر رہا ہے۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ملک ہے اور اس کی معیشت کی شرح نمو پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ کسی بھی شعبے میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان دوستی کی بجائے مخاصمت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس پالیسی کا نقصان جنوبی ایشیائی خطے کے عوام اٹھا رہےہیں۔
قیام پاکستان سے ہی ریاست کا بیانیہ جہادی رہا ہے۔ سنہ1948میں کشمیر پر حملہ ہو یا سنہ1965 میں آپریشن جبرالٹر یا سنہ 1999میں کارگل پر حملہ، پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کو ہمیشہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سنہ 1971کی جنگ میں تو پاک فوج نے انتہائی ذلت آمیز انداز میں بھارتی فوج کے جرنیلوں کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے۔
لیکن ان تمام شکستوں کے باوجود پاکستانی ریاست تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس جہادی بیانیے کی قیمت پاکستان کے عوام دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی، مہنگائی، توانائی کے بحران اور بے روزگاری کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ریاست کی ترجیحات میں عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ہتھیاروں کا انبار اکٹھا کرنا ہے۔پاکستان کی چالیس فیصد کے قریب آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار نے پر مجبور ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ بھارت افغانستان میں تعمیری کام یعنی سڑکوں کی تعمیر، ہسپتال ، تعلیمی ادارے قائم کررہا ہے جبکہ پاکستان تخریب کاری یعنی خود کش حملوں میں مصروف ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے عوام پاکستان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت تاریخی ہے ۔آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں ہزاروں افغان طلبا سکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ افغانستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے علاوہ سٹریٹجک پارٹنر شپ کا معاہدہ بھی کیا ہے جس میں وہ افغان آرمی کی ٹریننگ اور انہیں ہتھیار فراہم کرے گا۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان میں اپنی مرضی کی پالیسی بنانے یعنی بھارت کو افغانستان سے نکالنے سے انکار پر پاکستان کے سٹریٹجک اثاثے افغانستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں تاکہ افغانستان میں مسلسل بدامنی رہے اور دنیا کو بتایا جائے کہ افغانستان کی حکومت بہت کمزور ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
افغانستان میں حالیہ دھماکوں کے بعد جب افغانی عوام سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلے تو اسے ایک لحاظ سے پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیشلمنٹ کی کامیابی ہی کہا جا سکتا ہے اور وہ دنیا کو یہ باور کراتی ہے کہ افغانستان کی حکومت دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دہشت گرد تو افغانستان میں ہی رہ کر کاروائی کر رہے ہیں۔
افغانستان میں امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت دیکھنے کا خواب بند کردے۔مبصرین کے مطابق پاکستان جس دن افغانستان کو حقیقی معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار ملک تسلیم کرلے گا اس دن پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوجائے گی۔
افغانستان نے کس ملک کے ساتھ کس قسم کے تعلقات قائم کرنے ہیں اس کا فیصلہ کرنا افغانستان کے عوام کا استحقاق ہے۔ اسی طرح جس طرح پاکستان کویہ حق حاصل ہے کہ اس نے کس ملک سے کس نوعیت کے تعلقات قائم کرنے ہیں ۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ افغان عوام تو دور کی بات پاکستان کے عوام کو بھی فیصلہ کرنے نہیں دیتی۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں نےجب بھی ہمسائیوں سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے سبوتارژ کر دیا جاتا ہے۔
جبکہ پاکستان کے محب الوطن دانشور، لکھاری ، صحافی و میڈیا ان مسائل پر گفتگو کرنے کی بجائے اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان روشن خیالی کی جانب گامزن ایک عظیم ملک ہے ۔
محمد شعیب عادل