فرانسیسی پوسٹ ماڈرنسٹ دانشوروں کے چُٹکلے ،ایک تنقیدی جائزہ
اگر انقلاب فرانس کا تسلسل یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا تو یقینادُنیا ایک اور ڈگر پر چل نکلتی اور ماضی کے مقابلے میں ا س کا حال زیادہ تابناک ہوتا لیکن بد قسمتی سے ایسا ہونہ ہوسکا ۔ مختصر عرصہ کے بعد انقلاب فرانس کو سبو تاژ کرنا اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کااقتدار پر قابض ہونا اس بات کی دلیل تھی کہ انقلاب فرانس کے حاصلات ناکامی سے دوچار ہوئے ۔ اس کے نتیجے میں غیر جمہوری اور ضد انقلاب عناصر کے غالب آنے سے نہ صرف فرانس بری طرح متاثر ہوا بلکہ فرانس کے فلاسفروں اور دانشوروں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس طرح ایک بار پھر انسانی تاریخ کے ایک عظیم الشان انقلاب کے بعد فرانسیسی علمی وفکری حلقے بتدریج رُجعت اور رد انقلاب پرمبنی تحریروں اور افکار کامرکز بنتے چلتے گئے ۔
انقلاب فرانس( جولائی(1789دنیا بھر میں آزادی فکر اور سیاسی معاشی تبدیلی کی علامت سمجھاجاتا ہے لیکن دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کی توقعات کے برعکس خود فرانس میں اہل علم ودانش نے جن رجحانات کو فروغ دیا وہ انسانی دانش اور خود انقلاب فرانس کی روح کے منافی ہے ۔ ان منفی رجحانات میں انسان کو ایک بار پھر اس انقلابی راہ سے ہٹانے کی کوشش کی جسے فرانس کے خلق خدا سے جُڑے ہوئے خلقی قائدین نے متعین کیا تھا ۔
یہاں پر میں قارئین کیلئے ان افکار ونظریات کاذکر ضروری سمجھتا ہوں جو فرانس کے مفکروں اور دانشوروں نے مختلف ادوار میں پیش کیے جن سے بالا دست طبقہ کے سرمایہ اور استحصال کو تحفظ ملا جبکہ دوسری جانب محروم طبقات اور محکوم اقوام میں مزید مایوسی ا ور محرومی پھیل گئی ۔ اس ضمن میں جے جے روسو(1712-1778) کے فطری انسان کا نظریہ(تھیوری آف نیچرل مین ) میشل فوکو ((1926-1984کے طاقت کی پیروی کاتصور جین لیوٹارڈ(1924-1998)کے تصوریت اور ابہام کے بیانیے((میٹا نریٹو) جیکس ڈریڈا(1930-2004) کے رد تشکیلیت کاتصور((ڈی کنسٹرکشن )کے علاوہ جین پال سارتر کی وجودیت اور موجودہ مابعد الجدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم )اس سلسلے کی کڑیاں ہیں جنہوں نے فکری انتشار ، بے معنویت ، موضوعیت اور انفرادیت کو فروغ دیکر عالمی معاشرے کی اصل سچائی یعنی طبقاتی تقسیم کوچھپانے اور سیاسی ومعاشی غلامی سے نجات پانے کی جدوجہد سے روکنے کی کوشش کی ہے ۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام رجحانات عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف مراحل پر آلہ کاربن کر سامنے آئے ۔ ان ہی میں سے تازہ ترین مثال پوسٹ ماڈرنزم کی ہے ۔
پوسٹ ماڈرنسٹ نقادوں کاتنقیدی جائزہ لینے سے قبل قارئین کو پوسٹ ماڈرنزم کی تعریف سے روشناس کرانا بھی ضروی ہے ۔ ویسے تو پوسٹ ماڈرنزم دنیا کی تمام سچائیوں سے انکار اور جدیدیت کی ضد میں پیدا ہونے والے رحجان کے حوالے سے مشہور ہے لیکن پوسٹ ماڈرنزم کو لیوٹارڈ نے اپنے آسان الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ ماضی کے تمام بڑے بیانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہی پوسٹ ماڈرنزم کہلاتا ہے ۔
” Simplifying to the extreme , i define postmodern as incredulity toward meta- narraatives”(1)
اگر ماضی کے بیانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا یا ان پر بے اعتماد ی کااظہار کرنا پوسٹ ماڈرنسٹوں کاحق ہے تو پھر پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین کے تنقیدی فن پاروں اور بیانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ، لوکل وگلوبل
معاشی غنڈوں کو عوامی رنگ میں بدلنے کی ذمہ داری سے ان کا دستبردار ہونے اور بالخصوص حکمران طبقے کے ساتھ ان کی سمجھوتہ بازی کو بے نقاب کرنا ہم سب کا اولین فریضہ ہے ۔ واضح رہے کہ خلقی لٹریچر میں بورژوا پرست نقادوں پرتنقید کرنے والا ہی اصل تخلیقی تنقید نگار ہے ۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ لفظ پوسٹ ماڈرنزم کانام ہی غلط رکھا گیا ہے ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہی پیدوار ہے اور پوسٹ ماڈرنزم کے رحجان کا عقلی جواز اس لیے نہیں ہے کہ سرمایہ داری اب تک پوری آب وتاب کے ساتھ ایک نظام کی حیثیت سے قائم ودائم ہے لہذا جدیدیت کے بعد جدیدیت کاتصور کرنا محض خام خیالی ہے ۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پوسٹ ماڈرنزم کے رحجان کو آگے بڑھانے والے یہ معمولی سے منطق کوسمجھنے سے عاری ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر انسانیت کوگمراہ کرنے کی غرض سے یہ مفروضہ گڑھا ہے جس کامقصد موجودہ استحصالی نظام کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں جدوجہد میں مصروف لوگوں کو گمراہ کرنے کاذریعہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پوسٹ ماڈرنزم کے علمبرداروں نے سیاسی ومعاشی حقوق کی تمام عملی جدوجہد اور شعوری کاوشوں کوبے معنیٰ قرار دیکر صرف لسانی مکاری اور لفظوں کی جنگ کو اہم قرار دیا ہے ۔ یہ عناصر کسی بھی مسئلے کو اس کے سیاق وسباق میں دیکھنے کے قائل نہیں اور قطعی مجردانداز میں صرف تحریری مواد کی تبدیلی کو ہر مسئلے کاحل گردانتے ہیں ۔ ٹیکسٹ اپنے کنٹیکسٹ سے معنیٰ پاتا ہے اور معروضی حالات ہی علمی وادبی فن پاروں کی عظمت کاباعث بنتے ہیں ۔ پوسٹ ماڈرنسٹوں کی تمام سرگرمیاں لسانیات سے شروع ہوکر لسانیات پر ختم ہوتی ہیں اور اس لسانی جنگ کی ڈریڈا کے اس ایک جملے سے تصدیق ہوتی ہے کہ ٹیکسٹ سے باہر کچھ بھی نہیں ہے ۔
” There is nothing outside the text.”(2)
اس مکتبہ فکر کے نمائندہ افراد کے درمیان فکری ہم آہنگی کاکوئی وجود نہیں اور اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ۔ اس طرح سماج میں فکری انارکی کو فروغ دینے اور پرولتار یہ کو منشتر کرنے کے بھی یہ ذمہ دار ہیں ۔ واضح رہے کہ پوسٹ ماڈرنزم کی کوئی منتشرکہ تعریف ابھی تک نہیں آسکی ۔ ان کے اکثر دانشور اپنی فکر کاتعین کرنے سے قاصر ہیں ۔ دوسری جانب بعض خود کو پوسٹ ماڈرنزم سے وابستہ ظاہر کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں ۔ فیکسیشن کے خوف سے وہ اپنے نظریاتی دائرہ کار اور اصولوں کو اس لیے وضح نہیں کرتے کیونکہ بعد میں اپنے ہی بیانوں او تعریفوں کیلئے ان کوجوابدہ ہونا پڑتا ہے لہذا وہ حالات کاہمت وحوصلہ سے سامنا کرنے کی بجائے فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ یہی عناصر تمام مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہوئے تو تھکتے نہیں لیکن تعمیر وتخلیق کی ذمہ داری نہیں لیتے ۔ موجودہ ثقافتی اقدار پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن متبادل پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں ، اپنا نیا سوال ضرور اٹھاتے ہیں مگر دوسروں کے پرانے سوال کاجواب ہی نہیں دیتے، سماج میں ہر دم نئے مسئلے اٹھاتے ہیں مگر ان کا پائیدار حل پیش نہیں کرسکتے اور دوسروں پر کیچڑ اُچھالتے ہیں لیکن خود کو تنقید سے بالا تر رکھتے ہیں ۔
ان کی فلسفیانہ موشگافیوں میں سے ایک تحریر اور تقریر کے مابین مصنوعی تضاد پیدا کرکے اور تقریر کو تحریر پر فوقیت دیکر بنیادی نظریہ علم کو ایک بار پھر ابہام کاشکار کرنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریر اور تقریر دونوں ہی داخل اورخارج کے درمیان جدلیاتی عمل کانتیجہ ہوتا ہے ۔جدید سائنسی ایجادات کی مد د سے تحریر کے علاوہ تقریر اور تصویر کو محفوظ کر کے ماضی کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ تینوں انسان کے تجربے ومشاہدے کے عکاس ہیں ۔ تحریر اور تقریر دونوں انسان کے اظہار کے دومختلف انداز ہیں اور دونوں کی اہمیت وافادایت اپنی جگہ موجود ہے مگر ان کاآپس میں موازنہ کرنا غیر مناسب اورغیر ضروری ہے ۔ یہ نصف سچائی بیان کرتے ہیں جو انسانی مشاہدے اور تجربے کے مطابق جھوٹ ہوتا ہے ۔ یعنی اگر ایک گلاس میںآدھا پانی کوخالی یابھرا ہوا قرار دیاجائے تو یہ سچائی کے منافی ہوگا۔ ہمیں پریگ میٹک اپروچ کی سچائی سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ جدلیاتی عمل کے دوسرے سرے پر موجود شے کے وجود سے انکار کردیا جائے ۔ زمینی حقائق کو تسلیم کرنا بجا ہے لیکن اس سے انسانی تجربوں کانچوڑ یعنی تحریروں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
پوسٹ ماڈرنزم کے ایک اور علمبردار میشل فوکو کے مطابق تمام ادارے ، نظام اور قوانین طاقت اور طاقتور کے ماتحت ہیں ۔ ان کی اس بات سے کسی کو انکار نہیں لیکن محض اسٹیٹس کو کی تشریح کردینا انسانی دانش وفلسفہ کامنصب نہیں بلکہ طاقتور سے طاقت چھیننا اور زیارکش طبقے کو طاقتور بنانا یعنی سسٹم اور سٹیٹس کو کو تبدیل کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے لیکن میشل فوکو اور ان کے پیروکار محض لفاظی ، چرب زبانی اور الفاظ کی ہیرا پھیری سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ مایوسی ، محرومی اور بے ہمتی کوفروغ دینے کے باعث بنتے ہیں ۔ اشترا کی مفکر اعظم کارل مارکس نے انسانی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ دنیا بھر کے فلاسفروں اور دانشوروں پرواضح کیا تھا کہ فلاسفرز ذہنی عیاشی نہ کریں بلکہ سماج میں شُتر بے مار بننے کی بجائے ایک ذمہ دار خلقی بننے کاثبوت دیں اور انسانی سماج میں لمحہ بہ لمحہ رقم ہونے والی تاریخ کاعملی طور پر حصہ بنیں تاکہ آپ ان تمام محروم ،محکوم اور غلام لوگوں کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوں ۔
“The philosophers have only interpreted the world, in various ways. The point, however, is to change it.”(3)
پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین ابھی تک کوئی نیا نظریہ یافلسفہ پیش نہیں کرسکیں۔ لفظ پوسٹ ماڈرنزم بھی دوسروں سے مستعار لیا ہے۔ ماضی سے انکار کرنے کے باوجود ماضی کے ہی علمی اصطلاحات ، ہزاروں سال پرانی زبانوں کے الفاظ اور حتیٰ کہ سوال اور تنقید کرتے ہوئے بھی اپنے پیش روں کی تقلید سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے جن کی سب سے بڑی مثال جرمن فلاسفر فریڈرک نطشے ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین فریڈرک نطشے کے کاپی کیٹس ہیں اور یہ اپنے دودھ کونطشے کی جھاگ لگا کر دہی بناتے ہیں ۔
پوسٹ ماڈرنسٹ کے ہاں ایک اور اصطلاح بائنری اپوزیشن کے نام سے مستعمل ہے جس کے مطابق ٹیکسٹ میں ایک چیز کو اہمیت دی جاتی ہے اور دوسری چیز کو نظرانداز کیاجاتا ہے۔ اس ضمن میں ویسے تو بہت ساری مثالیں دی جاتی ہیں مگر میں اپنے قارئین کیلئے اسی کی آسان مثال مرد اور عورت کے تناظر میں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ انسانی سماج کے دیگر شعبوں کی طرح علم وفلسفہ میں بھی مرد حاکم اور عورت محکوم گردانی جاتی ہے ۔ خلقی شعور رکھنے والوں کیلئے عورت کی محرومیت ا ورمغلوبیت کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ تاہم مادر سری نظام کی جگہ پدر سری نظام کے غالب آجانے سے یہ سلسلہ جوں کاتوں چلا آرہا ہے ۔ عورت کی محرومی کاتعلق ٹیکسٹ کی بجائے اس استحصالی نظام سے جڑنا زیادہ مناسب ہوگا جس نے بیک وقت زیردست طبقے کے تمام مرد اور عورت کوغلام بنا رکھا ہے ۔
عورت کومحرومی اور غلامی سے نجات دلانے کیلئے اسی ظالمانہ نظام کا انہدام بنیادی شرط ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ پوسٹ ماڈرنسٹ ٹیکسٹ کے محدود خول سے باہر آکر ہر اول دستہ کاکردار ادا کریں ۔
ہم اپنی اس علمی بحث کو چائنا کے سیاسی مفکر ڈنگ شوپنگ کے معنی خیز اور فکر انگیز قول کی روشنی میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ بلی سفید ہے یا سیاہ ۔ سوال یہ ہے کہ وہ چوہے کو پکڑتی ہے یا نہیں ؟
“It doesn’t matter whether a cat is white or black, as long as it catches mice.”(4)
یہ مقولہ دراصل اہل علم وسیاست کوخلق خدا سے جڑنے اور معاشرے کی عظیم اکثریت کو سیاسی ومعاشی چوہوں سے آ زاد کرانے کے مترادف ہے ۔ ہمیں ہر قسم کی لسانی جنگ اور ثقافتی امتیاز ات سے بالا تر ہوکر ہر استحصالی عناصر کو خلقی رنگ میں بدلنا ہوگا اور یہ نسل انسانی کی معراج بنے گی ۔
ہمیں مذکورہ تمام فرانسیسی پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین بشمول رولاند بارتھ اور جین بورڈیلا رڈ کی لسانیات ، ساختیات ، پس ساختیات اور تجزیاتی میڈیا کے حوالے سے گرانقدر خدمات کا احساس ہے مگر زبان،
میڈیا،ثقافت اورریاست کے مقابلے میں زندہ انسانوں کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے کیونکہ باقی سب کچھ بنی نوع انسان سے مشروط ہے ۔بے شک آپ تمام فکری ولسانی کارنامے سر انجام دے لیں مگر انسان کے وقار ،آزادی اور ترقی کی قیمت پر ہرگز نہیں ۔
حوالہ جات:۔
1.The postmodern condition; A report on knowledge by Jean Francois Leyotard,1984.
2. What is postmodernism? Alleyin’s school media studies London,2013.
3.Karl Marxk & the phillosphy of praxis by Gavin Kitching , 1988, page29.
4. Deng Xiaping’s speach at communist youth league conference in july 1962.
One Comment