رؤف کلاسرا کی صحافت کی حقیقت

امام بخش

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ نمائش کا آغاز تقریباً 600 سال قبل مسیح  ہُوا اور پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آج نمائش ایک وسیع اورشاندار مارکیٹنگ کا طریقہ بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔ کسٹمر ریلیشن قائم کرنے میں یہ تمام مارکیٹنگ ٹُولز سے بڑھی ہوئی ہے۔ نمائش عموماً میوزیم، گیلریز اور نمائش کے بنائے گئے مخصوص ہالوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔

مگر رؤف کلاسرا نے نمائش کےمروجہ طریقوں سے ہٹ کر جدت سے بھرپور بہت ہی اَچھوتا طریقہ متعارف کروایا ہے، جس میں ان کے کلائنٹس کو طویل اور فرسودہ جھنجٹوں میں نہیں پڑنا پڑتا کیونکہ رؤف کلاسرا نے اپنے تیر بہدف ہائبرڈ کالم کو ہی نمائش کا اعلٰی متبادل بنا دیا ہے۔ جس سے فوری اور براہ راست فیض یاب ہوا جاسکتا ہے۔ موصوف ہینگ اور پھٹکڑی لگائے بغیر اور اُوپر سے بھاری تنخواہ کی وصولی کے ساتھ پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ اِن کی کاریگری کا کمال دیکھیئے کہ اپنی میڈیا کنسلٹینسی دوسروں کے خرچے پر بڑی کامیابی سے  مُسلسل چلائے جارہے ہیں۔

رؤف کلاسرا نے 29 اکتوبر 2014ء کےاپنے کالم نُما اشتہار کا عنوان چند خوفناک انکشافات۔۔۔۔!” دِیا ہے۔ عام قاری کی طرح  ہم بھی اِس چونکا دینے والے عنوان کے شکار ہو گئے اور پورے اِشتہار” کو پڑھنے بیٹھ گئے۔ ہمیشہ کی طرح تجزیہ نامی چیز عنقا تھی اور صدرالدین ہاشوانی کی کتاب (جس میں مصنف ذاتی خواہشات اور تخلیات کےصحرا میں بھٹک رہا ہے اور اُس نے کتاب میں ایسے اہم کرداروں کے نام لکھے ہیں جو تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تمام کردار دُنیا سے رخصت ہوچکے ہیں) کی مارکیٹنگ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، اِشتہار” کے آخر میں ہمیں ضرب المثل یاد آگئی کہ گدھے کو گدھا ہی کُھجاتا ہے۔ یہ اِشتہار نما کالم اتنا یکطرفہ اور لغو ہے کہ جس ادارے کے کلاسرا ایڈیٹر انوسٹیگیشن ہیں اس نے بھی اِن کے نفس مضمون سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس طرح کوئی بھی صحافتی ادارہ اپنی ذمہ داری سے مُبَّرا نہیں ہو جاتا۔

 رؤف کلاسرا رقم طراز ہیں کہ کتاب میں سابق صدر زرداری اور ہاشوانی کے درمیان جاری ایک خوفناک لڑائی  کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جو اِس کتاب کا ‘مین تھیم’ ہے۔ یہ لڑائی اُس وقت شروع ہوئی جب صدرالدین ہاشوانی کے کراچی ہوٹل میں 1983ء میں نوجوان آصف زرداری کی ہوٹل ڈسکو میں چند نوجوانوں سے لڑائی ہوئی، جس کے بعد ہوٹل کے گارڈز نے انہیں ہوٹل سے باہر پھینک دیا تھا، اس پر وہ ہاشوانی کے دشمن بن گئے۔”۔۔۔۔۔

ہوسکتا ہے کہ یہ لڑائی ہوئی ہو مگر جن لوگوں نے آصف علی زرداری کے خلاف کردارکشی کے طوفان بپا کیے، اِن کی جوانی کا قیمتی دور جیلوں، عقوبت خانوں اور تنگ و تاریک قلعوں کی نظر کر دیا اور عمر قید جتنا عرصہ جیلوں میں پابند و سلاسل رکھا، قید کے دوران ان کی والدہ سمیت کئی قریبی رشتہ داروں کی وفات پر پیرول پرعبوری رہائی نہ دی، اسیری کے دوران اِن پرذلت آمیز جسمانی تشدد کیا، دہشت زدہ کرنے کے لیے تشدد کے نت نئے طریقے آزمائے، زبان اور گردن پر کٹ تک لگائے، اِن کی بیوی یعنی محترمہ بےنظیر بھٹو کوعدالتوں میں صبح راولپنڈی، دوپہر کو لاہور اور دوسری صبح کراچی میں پیشیاں بھگتوائیں، جب محترمہ بےنظیر بھٹو بچوں کے ساتھ ان کو ملنے آتیں تو انھیں جیل کی ڈیوڑھی میں سخت گرمی اور تپتی دھوپ میں فٹ پاتھوں پر بٹھا کر طویل انتظار کروایا اورانھیں اپنی اولاد کے بچپن کا دور دیکھنے سے محروم رکھا۔۔۔۔۔

آصف علی زرداری نے اِن لوگوں کی طرف سے معافی مانگنے پرگلہ شکوہ کیے بغیر فقط مُسکرا کر فوراً ہی معاف کردیا۔ یہ بات ہی خلافِ عقل ہے کہ زرداری اپنی جوانی  کے دور میں ہوٹل کے گارڈز سے ایک لڑائی کو نہیں بھول سکے (جوانی کی اکثر لڑائیاں وقتی ابال کی وجہ سے ہوتی  ہیں، جو عموماً وقت گذرنے کے ساتھ  ختم ہوجاتی ہیں) اور ہوٹل کے مالک ہاشوانی کی جان کے دُشمن بن گئے؟

 ہاشوانی نے فوجی جرنیلوں سے اپنے قریبی تعلقات کے بارے میں بہت واضح طور پر لکھا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہاشوانی کو بھرے پاکستان میں کون چُھوسکتا ہے؟ اگریہ موٹی بات پاکستان کے کسی صحافی کی سمجھ سے باہر ہے تو پھر اُس کی حیثیت ایک چلتے پھرتے پوسٹر” کے سوا کچھ نہیں۔ اور ہاں اگر حقیقت معلوم ہے تو پھر وہ دُور کی کوڑیاں لانے کی بجائے سراسر جھوٹ بول رہا ہے۔ (اِس معاملے میں اگر کوئی پوسٹرفولادی ڈبے میں بند اپنی عقل کے تالے کھولنا چاہتا ہے تو پھروہ کم از کم نوازشریف کی کتاب غدارکون؟ نوازشریف کی کہانی اُن کی زبانی” کے صفحات نمبر 171، 172، 173 اور 174 پڑھے)۔

کالم کے آخری پیراگراف میں کلاسرا نےمیریئٹ ہوٹل اِسلام آباد پر حملے کے بارے میں ہاشوانی کے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ دراصل طالبان کا صرف نام استعمال کیا گیا، حملہ کچھ اور لوگوں نے کرایا تھا۔ کہانی کچھ اور تھی۔ ہاشوانی کے بقول یہ سیاسی کھیل تھا جو ان کے کاروباراور ہوٹلوں پر قبضہ جمانے کے لیے رچایا گیا تھا اور کھیل میں اس خونی شام درجنوں بے گناہ انسان مارے گئے تھے۔” یہاں اِشارہ آصف علی زرداری کی طرف کیا گیا ہے۔ یہاں بھی کلاسرا صاحب نے ہاشوانی کے اِلزامات کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا اور ہاشوانی کی بات من وعن مان لی کہ میریئٹ ہوٹل پر حملہ کرانے والا زرداری ہی تھا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2008ء کو میریئٹ ہوٹل اِسلام آباد مغربی سفارتکاروں اور عالمی شخصیات کے لیے بیرک کے طور استعمال ہورہا تھا۔ دھماکے کے وقت میریئٹ ہوٹل اسلام آباد میں درجنوں امریکی میرینز مقیم تھے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا اکیلے آصف علی زرداری نے فدائیان اسلام نامی تنظیم سے میرٹ ہوٹل اسلام آباد پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کروالی اور ساتھ میں یورپیئن اور امریکن ایجنسیوں کو بھی  چکر دے گئے؟

 دوسرا نکتہ بھی نوٹ کرنے والا ہے کہ 24 ستمبر 2008ء یعنی میریئٹ ہوٹل پرخودکش حملے کےچار دن بعد اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرِصدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے ملک کے خفیہ اداروں کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ خبر قومی اخبارات میں بھی شہ سُرخیوں کے ساتھ چھپی۔ اگر ہاشوانی کی بات مان لی جائے کہ  اس حملے میں زرداری ملوث تھے تو پھر دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی یعنی آئی ایس آئی سمیت وطنِ عزیز کی باقی پچیس ایجنسیاں سِول حکومت کی سخت تنقید کو کیسے برداشت کرگئیں جو اپنے مورال کے بارے میں اِنتہائی حساس ہیں؟

 اگر فہم و فراست اور ذہانت و ذکاوت کے مریضانہ زعم میں مبتلا کتاب کے مصنف اور تجزیہ نگار کی بات مان لی جائے تو ماضی و حال کی تاریخ کے مطابق آخر کون سا امر مانع تھا کہ آصف علی زرداری کی سازش سامنے نہ آئی؟ کلاسرا کا اِشتہار” پڑھ کر بندہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کسی کو بھی  پتہ نہیں چلا مگر رؤے زمین پر فقط دو سیانے یعنی کلاسرا اور ہاشوانی پائے جاتے ہیں جن کو اصل حقیقت معلوم ہے۔ معلوم نہیں کہ اِن عقل و دانش کے پہاڑوں نے جی ایچ کیو، ایس ایس جی ہیڈکوارٹر، مہران نیول بیس، سلالہ، کامرہ ایئربیس، کاکول اکیڈمی، واہ آرڈیننس، اسلام آباد ایف سی، چارسدہ ایف سی، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل جیلوں پر حملوں کا دائرہ کارزرداری تک کیوں نہیں پھیلایا؟

ہم نے صدرالدین ہاشوانی کی کتاب نہیں پڑھی۔ اِس لیے احاطہ رؤف کلاسرا کے کالم تک ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہاشوانی نے کتاب میں اپنے ہوٹلوں پر دوسرے حملوں کا ذکر کیا ہے یا نہیں۔ مگر ہم قارئین کو یاد دہانی کراتے جائیں کہ میریئٹ ہوٹل اِسلام آباد پر ہونے والا یہ تیسرا حملہ (20 ستمبر 2008ء) تھا۔ اس سے قبل 2004ء میں بھی میرٹ ہوٹل کی لابی میں بریف کیس بم کا دھماکہ ہوا تھا، جس کی ذمہ داری قبائلی جنگجو عبداللہ محسود نے قبول کی تھی۔ دوسری بار 26 جنوری 2007ء کو ایک بار پھر اِسے خود کش حملے سے نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے دوران تو حکومت پرویز مشرف کی تھی اور ان حملوں کا اِلزام ہاشوانی نجانے کن پر دھرتے ہیں؟  مچھر چھاننے اور اونٹ نگلنے والے  کلاسرا  ہی لقمہ فرما دیتے کہ آصف علی زرداری  نے یقیناً جیل اوربیرون ِ ملک سے بھی  ہاشوانی کے ہوٹلوں پرحملے کروا دیئے ہوں گے۔

 ہاشوانی کے دوسرے ہوٹل یعنی پرل کانٹی ننٹل (پی سی) پشاور میں بھی 9 جون 2009ء کو خود کش حملہ ہوا جس  میں کافی غیر ملکی ٹھہرے ہوئے تھے۔ اِس حملے میں تقریباً ڈیڑھ درجن لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ حملے کی ذمہ داری القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے ایک گروپ عبداللہ عزام شہید بریگیڈنے قبول کی۔ اس گروپ کے ترجمان امیر معاویہ نے ایسے مزید حملوں کی بھی  دھمکی دی۔  نجانے اِس حملے کا اِلزام بھی آصف علی زرداری پر تھوپ  کر عقل اور منطق کی درگت کیوں نہیں بنائی گئی؟

 ستائیس اگست 2009ء کو بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی۔ جس میں بتایا گیا کہ صدرالدین ہاشوانی کے ترجمان اعجاز  نبی کے مطابق پشاور پرل کانٹی ننٹل ہوٹل شدید مالی خسارے کے باعث فی الحال بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ہوٹل کے بیشتر ملازمین کو نوکریوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ دس جون کےدھماکے کے بعد ہوٹل کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا لیکن فوری مرمت کے بعد انتظامیہ نے پچاس کمرے قابل استعمال بنا کر چند روز میں ہوٹل شروع کر دیا تھا۔ دھماکے کے بعد کھلنے کے بعد بھی ہوٹل کی صورتحال یہ تھی کہ اس کے گیس اور بجلی کے بل تک ادا نہیں کیے جا سکے تھے۔ ایسے میں ادارہ ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ بھی زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اسی بناء پر ملازمین کی چھانٹی کا فیصلہ کیا گیا۔

  ہاشوانی کے ترجمان کے مطابق صدرالدین ہاشوانی کئی ماہ سے دبئی میں اپنے گھرمیں مقیم ہیں اور چند روز قبل ان کے بیٹے کی وہیں شادی بھی ہوئی ہے۔ صدرالدین کا دبئی اور مشرق وسطیٰ کے بعض دیگر ممالک میں تیل کی تلاش کا وسیع کاروبار ہے اور گزشتہ چند ماہ سے ان کی اور خاندان کے دیگر افراد کی پوری توجہ اسی کاروبار پر مرکوز ہے۔

بی بی سی نےاپنی رپورٹ میں لکھا کہ پرل کانٹی ننٹل ہوٹل کے ملازمین یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سروسز لمیٹڈ کے چیئرمین صدرالدین ہاشوانی نے اپنے ہوٹلوں پر ہونے والے ان پے در پے حملوں کے بعد پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی سی پشاور کو چلانے کے بجائے انتظامیہ نے اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس رپورٹ میں مزید بتا یا گیا کہ میریئٹ اسلام آباد میں دھماکے کے چند ہفتے بعد تعمیر نو کے دوران اس ہوٹل میں پراسرار طور پر ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے باعث ہوٹل میں واپس آنے والے مہمان ہوٹل چھوڑ کر چلے گئے۔ اور اس کے بعد سے میریئٹ ہوٹل اسلام آباد کی انتظامیہ مختلف پر کشش مراعات کے باوجود مہمانوں کو اپنی جانب مائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ہوٹل میں اس پراسرار آتشزدگی کے چند روز بعد صدرالدین ہاشوانی کے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں واقع گھر کے ایک حصے میں بھی آگ لگ گئی تھی۔ بظاہر انہی سکیورٹی وجوہات کی بناء پر صدر الدین ہاشوانی اپنے پورے خاندان کے ہمراہ گزشتہ آٹھ ماہ سے دبئی میں مقیم ہیں اور اس دوران ان کے خاندان کا کوئی بھی مرد رکن ملک واپس نہیں آیا۔

حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ ہاشوانی نے طالبان کی وجہ سے پاکستان چھوڑا اور ابھی بھی جرات نہیں کہ سچ کا اظہار کرسکیں۔ مگر اپنی کتاب کو چٹخارے دار بنانے کےلیے اِس میں اسٹیبلشمنٹ کا مقبول اور سائیڈ ایفکٹس” سے بالکل مُبَّرا زرداری مصالحہ” بھاری مقدار میں ڈال دیا ہے۔ رؤف کلاسرا نے بھی اِس بارے میں کوئی سوال نہیں اُٹھایا جو آج کل طالبان کی بھرپور مٹھی چاپی میں ہمہ تن مشغول ہیں۔

یاد رہے کہ مارچ 2010 ء میں پرل کانٹی ننٹل ہوٹل کراچی کے ایک سو پچاس نکالے گئے ملازمین نے اس ہوٹل کی بیسمنٹ پر قبضہ کرکے نو دن تک بھرپور احتجاج جاری رکھا مگر پورا میڈیا خاموش رہا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے صدرالدین ہاشوانی کی میڈیا پر گرفت ایک سول صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے  کئی گنا زیادہ تھی۔

آصف علی زرداری نے بھلے اپنے دورِحکومت میں پاکستان کے کور ایشوز کو ایڈریس کیا۔ قدم قدم پر اسٹیبلشمنٹ کو زچ کیا، مگر میڈیا اور پاکستان کے پاورفُل فیکٹرز کے ساتھ معاملات سَیٹل کرنے کے سِلسلے میں اِنھوں نے لمحہ موجود کے صحافتی اور سیاسی چلن کے حساب سے ناکامیوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں۔

اب ہاشوانی والا معاملہ دیکھ لیں جس نے زرداری کے علاوہ جس فوجی یا سول حکمران سے بھی فرمائش کی، فوراً سے پہلے اپنے مَن کی مُراد پائی۔ ہاشوانی کے لیے یہ بالکل اچھنبے کی بات تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آتے ہی ضیاءالحق دور میں معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی کی فائلیں کھل گئیں۔ آصف علی زرداری نے رائے عامہ بنانے والے کنگ میکرز اور اِن کے اِتحادیوں کو ہمیشہ مایوس کیا۔ ان سے نوازشریف اچھے، جنھوں نے اپنے وزارتِ اعلٰی دور میں پرل کانٹی ننٹل بھوربن کے لیے لبوں پرآنے والی چھوٹی سی خواہش پر پندرہ ایکڑ زمین دان کردی مگر زرداری ہیں کہ میرئیٹ ہوٹل اِسلام آباد پر حملے کے بعد ہاشوانی نے اِس ہوٹل کے پیچھے فقط ایک پلاٹ کولینے کے لیےہر لیول پرترلے کرلیے مگر زرداری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

صدرالدین ہاشوانی کے مارشل لاء ادوار میں وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اِن ادوار میں اِنٹرنیشنل طاقتوں کے ڈیلیگیشنز کی ہاشو گروپ کے ہوٹلوں میں بہار آجاتی ہے (جو پاکستان میں چند افراد پر ڈالروں کی بارش کرکے پاکستان کواِتنا نقصان پہنچاجاتے ہیں کہ جس کی سزا آنے والی نسلیں بھگتتی رہتی ہیں) ۔ ہاشوانی کو آصف علی زرداری کیوں نہ بُرے لگیں؟ ایک تو زرداری دینے دِلانے میں ٹھینگا دِکھادیتے ہیں اور اوپر سے جمہوریت کی مضبوطی کے ٹھوس اقدامات اُٹھاتے ہیں۔

کوئی تو ہاشوانی سے ایک بار  پوچھے کہ جب آصف علی زرداری پر کیسوں کی بارش ہورہی تھی تو اُس وقت آپ بھی تو بھاری بھرکم پتھر بن کر زرداری صاحب کے سَر پر زبردست طریقے سے برس سکتے تھے؟ اور نہیں تو عدالتی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں ارسلان افتخار کے ساتھ اپنے بیٹے اور بیٹی کی گہری دوستی کا ہی فائدہ اُٹھا لیتے۔

صدرالدین ہاشوانی کو ہیرو بنانےکے پروجیکٹ کو لانچ کرنے والے رؤف کلاسرا نے آصف علی زرداری کے اِس نئے دُشمن سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ماضی میں زرداری کے  خلاف جھوٹے کیسوں اور پروپیگنڈے کا طوفان برپا کرنے والوں یعنی سابق صدر غلام اِسحٰق خان، نوازشریف، پرویزمشرف، سیف الرحمٰن اور احمد شجاع پاشا کی معافیاں اور اِقرار جُرم  پہلے ہی پاکستان کی تاریخ کا حصّہ ہیں، کہیں آپ کا منطقی انجام بھی پُرانے دُشمنوں والا تو نہیں ہوگا؟

رؤف کلاسرا کو کوئی تو بتائے کہ کتابوں پہ تبصرہ اس طرح نہیں ہوتا کہ تبصرہ نگار اس میں چھپی ہر بات کو اس طرح بیان کریں جیسے یہ آفاقی سچ ہے۔ کلاسرا کے کالم کے دوسرے پیراگراف میں کتاب کواس طرح بیان کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ کالم نگار اس پر ایمان لے آیا ہے۔ کتاب میں لکھے راز، انکشافات، سب کی سنسنی خیز کہانیاں موجود ہیں اور کون کیا کر رہا تھا اور اس ملک کی بربادی میں کس کا کتنا حصہ ہے۔” کسی ایک جگہ بھی موصوف نے صدرالدین ہاشوانی کے کردار پر روشنی نہیں ڈالی اور نہ ہی اپنے بیس سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں کتاب میں بیان کیے گئے واقعات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لیے کوئی کچھ بھی لکھ دے کلاسرا اس کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں، کیونکہ اس سے مقتدر حلقوں اور ان کے چہیتے جَمُوروں کا فائدہ ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ رؤف کلاسرا اُنھی دھماکہ خیز میڈیا کے بھونپوؤں میں شامل رہے ہیں جِن کے سکینڈلوں پر مِلی بھگت سے سوموٹو ایکشنز لینے کافیشن بامِ عروج تک جا پہنچا تھا اورعدالت عظمیٰ نے ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے پروپیگنڈا سَیل کی شکل دھار لی تھی۔ مِلی بھگت گروپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف اکیس بوگس سکینڈلوں پر سوموٹو ایکشن لے کر سزائیں دینے کی بھرپور کوشش کی۔ عدالتی کاروائی کا نتیجہ تو آج کے دن تک صِفر ہے مگر جُھوٹے میڈیائی طوفان کے ذریعے نوجوان نسل کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متنفر کرکے اپنا مقصدسوفیصد حاصل کرلیا گیا۔

پارسائی کا وعظ دینے والے بقراطی صحافی رؤف کلاسرا ہمیشہ حالات کا رُخ دیکھ  کر ہی اپنا قلم گھسیٹتے ہیں۔ جمہوری لوگوں پر کُھل کر تنقید کرنا اِن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگر ان کے خلاف پروجیکٹ”  مِل جائے تواِن کی لاٹری نِکل پڑتی ہے اور معاملہ ایک تیر سے دو شکار والا بن جاتا ہے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ غیر جمہوری لوگوں پر تنقید بوری بند لاش، اندھی گولی، گالیوں کی بھرمار اور نوکری کی قربانی کا بھرپور ایوارڈ دیتی ہے۔ ’ایکسپریس ٹریبون‘ سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اپنا سبق مزید ازبرکرلیا ہے۔

رؤف کلاسرا کی صحافت پر نظر ڈالی جائے تو یہ اصولوں کی بجائے فقط ذاتی مفادات کی دُکانداری پر مبنی ہے۔ یہ ذاتی قصیدہ گوئی کے فن میں یدِ طولٰی رکھتے ہیں اورحسبِ فرمائش کاغذ سیاہ کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ ان کی کوئی تحریر اُٹھالیں یا تجزیہ سُن لیں، اُس میں اپنے مطلب کے آدمی تک رسائی کی بھرپورخوشامدانہ کاوش، ذاتی پذیرائی کے بھوکے لوگوں کی مارکیٹنگ، پرائیویٹ بزنس کی پبلیسیٹی (موصوف اپنے کالم میں ایک سینما تک کا اشتہار” چھاپ چکے ہیں)، سُنی سُنائی باتوں کو بھرپور طریقے سے آگے پھیلانے، مقتدرحلقوں کے ایشوز کواُبھارنے، بلیک میلنگ اورذاتی مخاصمت کی تکرارکے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

پاکستان میں ہتک عزت اور پریس لاز کمزور ہیں ورنہ ایسے تجزیوں کے بعد کلاسرا کی صحافت سے کب کی چھٹی ہو چکی ہوتی۔

4 Comments