ایمل خٹک
امریکہ کی جانب سے یوسف شاہ المعروف صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صلاح الدین حزب المجاہدین کا کمانڈر ہے۔ اور عرصہ دراز سے پاکستان میں مقیم ہے۔ نہ تو پاکستانی اداروں نے اس کی پاکستان میں موجودگی کو کبھی چھپانے کی کوشش کی ہے اور نہ خود صلاح الدین نے ۔ وہ کھلم کھلا گھوم رہا ہوتا ہے اور عوامی اجتماعات ، کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتا رہتا ہے ۔
کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کے شروع میں حزب المجاہدین اور صلاح الدین کو دشمن نمبر ایک گردانا جاتا تھا مگر بعد میں جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کی کشمیر کی جہادی محاذ پر منظر عام پر آنے کے بعد مولانا مسعود اظہر اور خاص کر حافظ محمد سعید کی اہمیت بڑھ گئی ۔ امریکہ حافظ سعید کو پہلے سے بین الاقوامی دہشت گرد قرار دے چکی ہے اور اس کی گرفتاری میں مدد دینے پر دس ملین ڈالر کا انعام بھی رکھا ہے۔
انڈین وزیراعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر کمانڈر صلاح الدین کو دہشت گردوں کے فہرست میں شامل کرنا انڈیا اور امریکہ کے مابین بڑھتے اور گہرے ہوتے ہوئے سٹرٹیجک تعلقات کی غمازی کر رہا ہے ۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ اس اقدام سے امریکہ کا مسئلہ کشمیر پر موقف انڈیا کے حق میں تبدیل ہو رہا ہے یا نہیں مگر اس میں شک نہیں کہ امریکی انتظامیہ کا یہ اقدام یقیناً پاکستان کیلئے نیک شگون نہیں۔ عسکریت پسند حمایت پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی اندرون ملک اور بیرون ملک پریشانیاں بڑھ رہی ہیں مگر اپنی ہی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی ماری پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو حالات کی سنگینی کا احساس نہیں ۔ ابھی تک ان کی انڈیا ، افغانستان اور کسی حد تک ایران کے حوالے سے پالیسیوں میں جہادی گروپوں کی اہمیت تاحال برقرار ہے ۔
جذباتیت اور انتقامی سیاست کا بین الاقوامی تعلقات میں عمل دخل سے انکار نہیں مگر ایک تو اس کے اظہار کی شدت اور دوسرا انتقام لینے کے طریقوں میں فرق ہوسکتا ہے ۔ پاکستانی پالیسی ساز انتہائی بھونڈے اور تباہ کن ذرائع بروئے کارلا رہے ہیں ۔ عسکریت پسندوں کا ریاستی پالیسیاں پروان چڑھانے کیلئے استعمال بدستور جاری ہے ۔ بے پناہ جانی اور مالی نقصانات کے باوجود عسکریت پسند بدستور ریاستی پالیسیوں کو فروغ دینے کا اہم ذریعہ ہے ۔ بدنام زمانہ دہشت گرد احسان اللہ احسان جو کئی ہائی پروفائل دہشت گرد سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے کی پذیرائی اور انہیں عام معافی دینا ریاست اور عسکریت پسندوں کے تعلقات کے حوالے سے عوامی سطح پر موجود شکوک وشبہات کو درست ثابت کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔
خارجہ پالیسی کے فروغ کیلئے عسکریت پسندی کا استعمال کئی حوالوں سے ناکام ہوچکا ہے ۔ ایک تو کئی عسکریت پسند قابو سے باھر ہوچکے ہیں ۔ ریاستی پروردہ کئی گروپوں نے اب اندرون ملک بھی کاروائیاں شروع کی ہیں اور اب انہوں نے خود ریاستی اداروں پر بندوقیں تان لی ہیں یعنی بُرے طالبان بن چکے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ متعلقہ ریاستی ادارے اپنی غلطی تسلیم کریں وہ اپنے آپ کو ان عسکریت پسند گروپوں کو بنانے اور سرپرستی کرنے کی ذمہ داریوں سے مبرا ثابت کرنے کیلئے بیرونی عوامل کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ ریاستی اداروں کی پیدا کردہ عسکری مشین خود ان کی غلطی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اب علاقائی قوتوں کیلئے کرائے پر دستیاب ہے ۔
دوسرا دہشت گردی اور خون ریزی کا ردعمل یا جواب بھی دہشت گردی اور خون ریزی میں ملتا ہے ۔ کسی بھی بہانے یا اعلی مقصد کیلئے ہو دوسروں کا خون بہانا اور خاص کر بیگناہ اور معصوم شہریوں کا ایک ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے ۔ تیسرا بعض عسکریت پسند ایک طرف اندرون ملک بعض قبائلی علاقوں میں اچھے طالبان کی سرگرمیاں ریاستی اداروں کے لیے باعث شرمندگی بن رہی ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف کچھ اور عسکریت پسند بیرون ملک بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور ملک پر خارجی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی ایران نے بھی پاکستانی سرزمین پر ڈرون جاسوس پروازیں شروع کی ہیں اور ایران کی دہشت گردوں کی گرم علاقوں تک تعاقب کی دھمکی کے پیش نظر ڈرون حملوں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔
کبھی ہم انڈیا کو سبق سکھانے کی کوشش میں ہوتے ہیں کبھی افغانستان اور کبھی ایران کو مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ یہ سبق یا سیکھیں گے یا نہیں مگر وہاں کے عام شہریوں میں مخاصمانہ جذبات ضرور پیدا ہوجاتے ہیں اور بعض کیسوں میں خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر افغان طالبان ، حقانی نیٹ ورک یا داعش کے بعض گروپوں جن پر پاکستانی اداروں سے تعلق اور سرپرستی کا الزام ہے کی دہشت گرد کاروائیوں کی وجہ سے افغان عوام میں پاکستان مخالف جذبات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔
چاہے افغانستان ہو یا انڈیا میں سرگرم عمل عسکریت پسند مثلا حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان یا کشمیر میں برسرپیکار تنظیموں کی سرپرستی کے الزامات پاکستان پر صرف پڑوسی ممالک نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی لگاتے ہیں ۔ امریکہ ، یورپ اور اقوام متحدہ کئی پاکستانی عسکریت پسندوں کو عالمی دہشت گرد افراد کے فہرست میں شامل کرچکی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان بین الاقومی سطح پر مطلوب افراد میں سے بعض عسکریت پسندوں نے پاکستان میں کھلم کھلا اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔ باقاعدگی سے چندہ جمع کرتی ہیں عسکری تربیت کیلئے رضاکار بھرتی کرتے ہیں ۔ ایک تنظیم پر پابندی کے بعد دوسرے نام سے کام جاری رکھتے ہیں ۔ ریاستی حفاظت اور سرپرستی میں عوامی ریلیاں اور اجتماعات منعقد کر رہے ہیں۔
اصلاح احوال کیلئے ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر فوری تجدید نظر کی ضرورت ہے ۔ ان پالیسیوں پر وسیع قومی بحث اور مشاورت کی ضرورت ہے ۔ قومی پالیسی بنانے وضع کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کی نگرانی اور وقتا فوقتا جائزہ لینے کیلئے پارلیمان کو اہم رول دینا ہوگا۔ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر کام کرنا ہوگا پالیسی سازی پر بعض اداروں کی غیر آئینی تجاوز کا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ مزید تباہی اور بربادی کو نہیں ٹالا جاسکتا ۔
♦