منٹو افسانہ لکھتے جو تکنیک استعمال کرتے تھے ان میں ایک تکنیک یہ تھی کہ وہ قاری کو آخری لائینوں سے پہلے افسانے کے اختتام کی بالکل ہوا تک لگنے نہیں دیتے تھے ۔ قاری دھیرے دھیرے پڑھتا جاتا کہ اچانک اس کا پاؤں کسی چھوٹے سے پتھر سے ٹکراتا وہ دھڑام سے منہ کے بل گرتا تو اسے افسانے کا اختتام زمین پہ پڑا ملتا جو افسانہ پڑھتے اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔
ہماری عدلیہ ایک ناکام افسانہ لگار ہے جو افسانے کے عنوان میں ہی افسانے کا اختتام لکھ دیتی ہے۔
کوئی شخص درخواست لے کر عدلیہ کے پاس جاتا ہے تو درخواست قابل سماعت ہونے سے لے کر درخواست کے بارے فیصلہ لکھتے وقت تک وہ ہر روز اپنے ریمارکس میں فیصلہ لکھتے رہتے ہیں ۔۔ دنیا میں کسی عدلیہ کے ججز سماعت کے دوران اتنے ریمارکس نہیں دیتے جتنے پاکستان کی عدلیہ کے ججز دوران سماعت ریمارکس دیتے ہیں اور نوے فیصد ان کے فیصلے ان کے دئیے ہوئے ریمارکس پہ ہی مشتمل ہوتے ہیں ۔
ضیا مارشل لا جائز ہے یا نہیں اس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا ایک ریمارکس ہی تھا کہ جب شام کو ایک پارٹی میں جنرل چشتی نے ان کے ہاتھ سے کھانے کی پلیٹ لے کر میز پہ رکھی اور چیف جسٹس کو ایک طرف لے گئے چیف جسٹس آدھی رات سے ذرا پہلے پارٹی سے سیدھے سپریم کورٹ گئے دفتر کھلوایا اور سارا فیصلہ نئے سرے سے لکھا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے بہت کم ایسے افسانے ہیں جو ہماری عدلیہ خود لکھتی ہے اس کو لکھا لکھایا افسانہ تھما دیا جاتا عدلیہ کو اسے سنا کر صرف اپنے نام سے چھپوانا ہی ہوتا ہے ۔
اس کی ایک مثال ضیا آمر نے جب پیر پگارہ کی طرف سے تحفہ میں ملے سندھی وزیر اعظم کی حکومت کو برطرف کر کے بہاولپور جانے کے لیے جہاز میں بیٹھ گئے اور پورے جسم کے ساتھ واپس نہ آسکے اور اسلم بیگ نے وہ چھڑی اپنے ہاتھ میں لے لی تو اسلم بیگ نے وسیم سجاد کے ہاتھ عدلیہ کو پیغام بھیجا کہ سول حکومت کو بحال نہ کیا جائے اور عدلیہ نے وہی افسانہ پڑھا جو چیف آف آرمی جنرل اسلم بیگ نے بھیجا تھا۔
روز نامہ دنیا میں ایک کالم نگار نے کل ایک کالم“دی پارٹی از اوور” کے عنوان سے لکھا ہے یہ کالم نگار اپنے دھیمے پن کی وجہ سے نہ صرف مشہور ہیں بلکہ بہت ہی باخبر بھی اور اندر کی انتہائی خفیہ معلومات رکھتے ہیں اس سے پہلے وہ دوسرے دو برسر اقتدار سربراہوں کو بھی وقت سے پہلے بتا چکے ہیں کہ” سر آپ کی پارٹی از اوور “۔
چار نومبر 1996 کو گورنر ہاوس لاہور مین یہ کالم نگار زرداری کو بتا چکے ہیں سر ،، پارٹی از اوور ۔۔ مگر زرداری اپنی مخصوس ہنسی میں بات کو ٹال گئے مگر اگلے دن فاروق بھائی نے بہن بے نظیر کی حکومت کو ختم کر کے ” پارٹی از اوور” کی تصدیق کر دی ۔
حیرت ہے ادھر لاہور میں یہ کالم نگار زرداری کو پارٹی از اوور کی اطلاع دے رہے تھے ادھر ااسلام آباد میں اس وقت کے ایک اور کالم نگار اور آج کے مشہور ٹی وی اینکر بے نظیر کو پارٹی از اوور کی اطلاع دے رہے تھے مگر دونوں فاروق بھائی کی محبت میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ جی ایچ کیو سے نکلتی کار بغیر کسی سنگنل پہ رکھے ایوان صدر جاتی ان دونوں کو نظر نہ آئی۔لاہور کے کالم نگار
The Party is Over
کے جملے کے اصل ایجاد کندہ کا کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب نو ستارتوں پہ مشتمل اتحاد اور بھٹو صاحب کی سیاسی جنگ عروج پہ تھی تو کراچی میں ایک امریکی قونصل جنرل رابرٹ (جس کو بھٹو صاحب انتہائی نا پسند کرتے تھے) نے اپنی حکومت کو بھٹو صاحب کا اختتام بتا نے کے لیےخفیہ کوڈ میں کہا تھا “پارٹی از اوور”۔
ملک کی ایک ایجنسی میں بھٹو صاحب کے ایک ہمدرد نے یہ آواز بھٹو صاحب کو بھی سنا دی تھی تو پھر بھٹو صاحب نے جون میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بہت ہی جو شیلی تقریر کی تھی جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ایک سفید ہاتھی میرے خلاف سازش کر رہا ہے اور آخر پہ انہوں نے کہا تھا ” جنٹلمین پارٹی از ناٹ اوور ” ہماری فوج اور عدلیہ کے ہاتھ سیاسی شہیدوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔
پانامہ کیس میں پہلے دن سے ہی آپ پاکستان عدلیہ کے ججز کے ریمارکس پڑھ لیں ڈان نیوز پہ فوج کے آپ ٹوئیٹر پڑھ لیں اور پھر خصوصی طور پہ انگلی کے منتظر کپتان کی پارٹی کی چھتری پہ آئے دن بیٹھنے والوں کو دیکھ لیں تو اندازہ ہو رہا ہے کہ پارٹی از اوور۔
نواز شریف کو دیکھیں کتنے دن اور ملتے ہیں۔ فی الحال تو وہ مسجد نبوی مین بیٹھے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں مگر انہیں شاید علم نہیں وہاں مذہبی گناہوں کی معافی تو مل سکتی ہے مگر عدلیہ اور فوج کے ساتھ کیے گئے گناہ اور طرح کے ہوتے ہیں اور ان گناہوں کی معافی مانگنے کا طریقہ کار بھی اور طرح کا ہوتا ہے اور ایک وقت ہوتا ہے ۔ نواز شریف شاید وہ وقت کھو چکے ہیں ، ایک سول جب فوج سے ٹوئیٹر واپس لینے کا گناہ کر لے تو پھر
The Party is Over
♣
One Comment