عطاالرحمن عطائی
کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر صرف گاڑیاں نہیں دوڑتیں ، یہاں ہزارہ شہداء کی روحیں بھی دیوانہ وار دوڑتی ہیں۔ اور لہو رنگ ہاتھوں سے اپنے چہرے پیٹتی ہوئی ماتم کرتی ہیں۔ جائے مقتل پر کھڑی یہ ارواح اپنے لہو لبریز زخم آسمان کو دکھا دکھا کر اس کی حمیت انصاف کو للکار رہی ہوتی ہیں۔
جب آسمان کی گونگی و ساکت زبان پر جمود و بے حسی پاتی ہیں اور وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا تو یہ ارواح ان سڑکوں پر یہاں وہاں جانے والے زندہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں۔ اور انتہائی شدت سے چلاتی ہیں کہ
اے اے شہر نامرداں ،اے ہجوم فطرت بریداں ۔ یہ دیکھو تمھارے سامنے ہم کٹے ،قتل ہوئے اور مسلسل قتل ہوتے آرہے ہیں مگر تمھاری زبانوں سے ایک، صرف ایک آہ تک نہ نکل سکی۔
ہمارے ورثاء نے ہمارے قتل بے دریغ کو دیکھ کر اس شہر درد پسند میں آنا چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ایک گھونسلے سے دوسرے گھونسلے تک جا نہیں سکتے اور باہر کی دنیا میں جھانک نہیں سکتے۔ مگر ہمارے قاتل اس شہر کے سینے پر کسی بدمست ہاتھی کی طرح لوگوں کو روند رہے ہیں۔ ہائے ہائے رب کائنات تیرے انصاف کے کیا کہنے۔
ان ارواح کی ان دلدوز چیخوں اور فلک گیر نالہ و آہ و بکاہ سے ڈر کر شہر کے دیگر اور خود کو صحیح مسلمان کہنے والے مردوں کی روحیں ان راستوں پر نہیں جاتیں جن راستوں پر زندہ ہزارہ نہیں جاسکتے۔
کوئٹہ شہر کی ان سڑکوں پر ہزارہ شہداء کی روحیں بسیرا قائم کئے رکھتی ہیں اور اپنے جائے ماتم سے کبھی نہیں ہٹتیں۔ لیکن ان میں بھگدڑ اس وقت مچ جاتی ہے اور رونے و چلانے کی آوازیں کوئٹہ کے پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچتی ہیں، ایک قیامت برپا ہوجاتی ہے جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ آج قاتلوں نے پھر اپنے کیچڑ زدہ ذہن کے حامل انتہاپسند جذبات میں مغلوب ہو کر بارود بھری گولیوں کا استعمال کرنا ہے۔
جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ آج پھر مری آباد سے ہزارہ ٹاون جاتے ہوے نہتے شوہر اور بیوی کو شان صحابہ کا حق ادا کرتے ہوے مارا جائے گا۔
آہ ۔ ارواح کی اس بھاگ دوڑ اور دیوانگی سے لبریز ماتم کی عکسبندی انگلش مووی ہی کر سکتی ہے۔
اس بھاگم بھاگ میں بعض روحیں قاتلوں پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن ارواح کے محض ہیولے ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ پھر سب صلاح و مشورہ کرلیتی ہیں کہ چلو منت و زاری سے بات کرتے ہیں مگر یہ حربہ بھی ناکام رہتا ہے۔
دوسری طرف کچھ روحیں قتل ہونے والوں کے کانوں میں چلا چلا کر کہتی ہیں کہ آج موت کی شاہراہ کے سفر سے گریز کیجئے۔
مگر زندوں کو روحیں کہاں نظر آتی ہیں۔ وہ ہر چیز سے بے خبر ، سہمی ہوی نظروں ،دھڑکتے ہوے دل کے ساتھ غیر محفوظ شہر میں سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ جوں جوں وہ بے خبر جوڑا جائے مقتل کے قریب پہنچتا ہے تو بین و غم کی آوازیں روحوں میں تیز ہوجاتی ہیں ۔
پھر اچانک فائرنگ کی آواز آتی ہے ،دوسری فائر پھر تیسری فائر کی آواز۔ مسلسل چھ فائر ہوتے ہیں اور حوا کی بیٹی کی چیخ منافقین کے سینوں چیرتی ہوی نکلتی ہے۔ اور اس کے ساتھ گولی کے وار سہنے والے مرد کےہونٹوں پر کلمے کا ورد جاری رہتا ہے۔ اور اس طرح اسپینی روڈ کے سینے پر ایک اور ہزارہ عورت اور مرد کی لاشوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
روحوں کی دنیا میں خوفناک خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔سب روحیں بے آواز ہوجاتی ہیں اور مقتولین کے اجسام سے روح نکلنے کا انتظار کرنے لگ جاتی ہیں۔
اس کے برعکس باہر زندہ لوگوں کی دنیا میں ایک شور برپا ہوجاتا ہے۔دکانیں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ لوگ یہاں وہاں دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔اور مقتولین کے گھروں میں ان کی ازلی نیند کی اطلاع پہنچ ماتم بپا کر دیتی ہے۔
اب روحوں کی دنیا میں سکوت ہے، خاموشی ہے اور زندوں کی دنیا میں ہلچل۔ شاید وہاں مہمانوں کا استقبال ہورہا ہے اور یہاں ابد الوداع۔
♦
One Comment