انور عباس انور
تاریخ عالم میں ان گنت واقعات ملتے ہیں ،جن میں بتایا گیا ہے کہ کئی معاشرے محض اس وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئے کہ اس دور کے حکمران انصاف فراہم نہ کرسکے،ظالم دندناتے پھرتے رہے اور مظلوم سسکیاں لے لے کر دم توڑتے رہے، قاضیوں ،منصفوں اور حکمرانوں کے درباروں کی زنجیریں ہلاتے ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرتے ہیں۔
دنیا کے عظم مفکر،دانشور بے مثال مقرر اور عظیم برطانیہ کے وزیر اعظم آنجہانی ونسٹن چرچل نے جرمنی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ عظیم دوم کے موقعہ پر اپنی کابینہ کا اجلاس بلایا اور جنگی سازوسامان کی صورتحال دریافت کرنے کی بجائے یہ معلوم کیا کہ برطانیہ کے عوام کو عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے یا نہیں،پوری کابینہ نے یک زبان ہوکر اپنے لیڈر وزیر اعظم آنجہانی چرچل کو بتایا کہ عدالتیں عوام کو انصاف فراہم کر رہی ہیں، جس پر چرچل نے کہا کہ اب ہم ہزاروں سال یہ جنگ لڑ سکتے ہیں۔
جناب برینڈر رسل بخوبی جانتے تھے کہ اگر قوم کے ساتھ بے انصافی ہو رہی ہوگی توجدید ترین اسلحہ سے لیس فوج بھی جنگ نہیں جیت پائے گی،کیونکہ جنگیں جدید ترین اسلحے کے زور پر نہیں لڑی جاتیں بلکہ جنگوں میں جذبے اور عزم فتح سے ہمکنار کرتے ہیں،اور جذبوں اور عزم میں توانا پن اسی وقت آتا ہے جب قوم کو انصاف میسر ہو، دنیا کا عظیم فلاسفی اس حقیقت سے باخبر تھا کہ وہ قومیں اپنے دشمن سے جنگ نہیں لڑ سکتیں جنہیں ملکی عدالتوں سے انصاف نہ دستیاب ہوتا ہو۔ہمارے معاشرے میں محض عدالتی میدان میں ناانصافی نہیں دندناتی پھر رہی بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ظلم،زیادتی کا سامنا ہے۔
ہمارے دیس مین ماضی حال اور مستقبل کے حکمرانوں کی باتوں کو لیں تو ہر طرف امن و سکون ،امن و آشتی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، ہر چیز خالص ملتی ہے ،ملاوٹ نام کی کوئی شئے پاک دھرتی میں نہیں، لیکن ایسا خوابوں کی دنیا مین تو ممکن ہے پاک سرزمین پر ممکن نہیں،اسکی وجہ ہے کہ ہمارے من صاف نہیں، ہم نہ دین سے مخلص ہیں اور نہ دنیا سے اور نہ ہی اپنے آپ سے مخلص ہیں،اگر ایسا ہو تو کسی کی جان سے کھیلنے سے قبل ہم کئی بار سوچیں۔مگر ہم کیوں سوچیں ہمیں تو راتوں رات امیر بننا ہے، کوٹھی بنگلہ اور کار لینی ہے۔
کچھ عرصہ قبل چوک بیگم کوٹ لاہور سے گزر رہا تھا کہ ایک شیر فروش نے بڑے بڑے بینرز آویزاں کر رکھے تھے کہ خالص دودھ 60 روپے گڑوی اور 2 گڑویاں دودھ خریدنے والے کو ایک گڑوی مفت دیاجائے گا،یعنی دو گڑوی دودھ کی قیمت میں ایک گڑوی مفت دیا جا رہا تھا، ایسا ہی ایک سماں کوٹ عبدالمالک کے مین بازار میں چشم جہاں نے دیکھا،پا کستان کی تاجر برادری کے پاکستانی عوام سے اس مشفقانہ اور پیار بھرے سلوک کانظارے دیکھ کر کئی دن تک سوچ کے سمندر میں غرق رہا۔
اور حیرت اس بات پر تھی کہ اتنی رعایت کس خوشی میں دی جا رہی ہے، جبکہ میرے شہر جسے لوگ شہر تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور وہ اس بات پر بضد ہیں کہ شرقپور شریف شہر نہیں قصبہ یا ٹاؤن ہے، وہاں تو دودھ(کچا) 80 روپے کلو (گڑوی) فروخت ہوتا ہے ، اور ایک روپیہ کم نہیں کیا جاتا تو چوک بیگم کوٹ اور کوٹ عبدالمالک کے شیر فروش کیسے 60 روپے گڑوی دودھ اور وہ بھی خالص دودھ بیچ رہے ہیں ،اور اوپر سے دو گڑوی کی خریداری پر ایک گڑوی مفت۔۔۔ آگے آ پ خود اندازہ لگا لیں کہ دودھ کس قدر خالص ہوگا؟
ابھی گزشتہ روز پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام نے ملتان روڈ پر واں کھارہ کے مقام پر دودھ بنانے والی ایک فیکٹری پر چھاپہ مارا اور 5000 ہزار لیٹر دودھ پکڑا، اس دودھ میں بہت سارے ایسے اجزاء شامل کیے گئے تھے جو مضر صحت ہی نہیں انسانی زندگیوں کے لیے زہر سے کم نہیں تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہ دودھ قصور سمیت اردگرد کے شہروں قصباجات میں فروخت کیا جاتا تھا، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس فیکٹری کو مقامی حکام بھی کئی بار چیک کر چکے ہیں لیکن فیکٹری انتظامیہ ہوس زر میں اس قدر اندھی ہو چکی ہے کہ وہ اس موت کے کھیل سے باز آنے کو تیار نہیں۔۔۔اس خبر کی اشاعت کے بعد بات میری سمجھ میں آ گئی کہ ساٹھ روپے کلو یا گڑوی اور دو گڑوی یا کلو دودھ خریدنے پر ایک گڑوی دودھ مفت دیاجاتا ہے، اور ہمارے عوام جو انتہائی سادہ لوح واقع ہوئے ہیں سستے کے لالچ میں موت کا سامان خریدنے میں مشغول ہیں، اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اتنا سستا دودھ ہے بھی یا نہیں۔
ہمارے معاشرے کے ہوس زر میں مبتلا ہونے کی ایک تازہ مثال دیکھ لیں کہ سیالکوٹ کے تھانہ حاجی پورا کے علاقے عالم چوک کے ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم بچوں نے ساتھی طالب علم کے ماموں کے 80 روپے چرالیے اور اس چوری کو راز نہ رکھنے پر ساتھی طالب علموں کو کھانے میں زہر دیکر مارنے کی کوشش کرڈالی، متاثرہ بچوں کو ہسپتال داخل کروا دیا گیا ہے اور ملزمان کو گرفتار کرکے پولیس نے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔۔۔ جب ہمارے دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طالب علموں کا یہ حال ہے تو باقی معاشرے کا عالم کیا ہوگا؟
ایسا ہی ایک واقعہ گجرانوالا کے علاقے لدھیوالہ میں ایک نجی سکول کے پرنسپل نے ایک نویں جماعت کی طالبہ سے زیادتی کرڈالی،طالبہ نے سکول چھوڑ دیا والدین نے سکول جانے کے لیے دباؤ ڈالا تو طالبہ نے پرنسپل کے کرتوت بتائے جس پر طالبہ کے والد نے مقدمہ درج کروا دیا ہے،ا للہ کے پاک کلام قرآن مجید کے تیسویں پارہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ’’افسوس ہے ان لوگوں پر جو خود پورا مال لیتے ہیں اور آگے دوسروں کو کم دیتے ہیں‘‘ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ہے کہ’’ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ ۔
راتوں رات امیر کبیر ہونے کی ہوس میں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس نبی رحمت کے ہم نام لیوا ہیں اور روز جزا و سزا جس کی شفاعت کے متمنی اور آرزو مند ہیں وہ تو کہتے ہیں ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم مین سے نہیں‘‘ اے دولت کے پجاریوں! سوچو اور غور کرو کہ روز جزا و سزا ہمارے آقا و مولا نبی کریم صلعم نے ہماری طرف پیٹھ کر دی اور ہم سے لاتعلقی کا اعلان کیا تو ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟دوزخ کا ایندھن کیوں بننے پر تلے ہوئے ہیں؟
روزفیصلہ لوگوں کے ہاتھ آپ کے گریبانوں پر ہوں گے، ڈرو اس وقت سے جب اللہ کا عذاب تمہیں آن دوچے گا۔تعلیم کے پیغمبرانہ کام پر مامور اور زیور تعلیم سے آراستہ ہونے والے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے درندوں روز محشر اپنے رب کریم کو کیا جواب دوں گے، دنیا میں بھی تم اپنے اہل خانہ ،عزیز و اقارب اور بیوی بچوں کی نظروں سے گر رہے ہو اور آخرت بھی خراب کر رہے ہو۔۔۔کچھ تو خوف خدا کرو اگر درندگی سے باز نہین آنا تو کم از کم تعلیم جیسے مقدس پیشے کو تو رسوا اور بدنام نہ کرو۔
حکومت سے درخواست ہے کہ وہ سیاسی دباؤ سے بالاترہوکر ان بھیڑیوں ، درندوں اور شیطانوں کو انساف کے کٹہرے میں لائے اور انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچائے، تاکہ باقی ان جیسے درندہ صفت کے حامل لوگوں کو کچھ حیا آجائے،کچھ شرم آجائے اور جعلی اشیا خورد ونوش اور جعلی دودھ بنانے والی فیکٹری مالکان لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے باز آجائیں،
♦