ڈاکٹر پرویز پروازی
’’ دل بھٹکے گا ‘‘ ناول کے مہین پردہ میں لکھی ہوئی احمد بشیر کی سرگزشت ہے ۔ وہ ایمن آباد میں پیدا ہوئے ،سرینگر میں تعلیم پائی ۔ ساری عمر ریڈیو‘ تعلقات عامہ ‘ اخبارات‘ فلم سازی میں بسر ہوئی۔ صحافت میں انہیں چراغ حسن حسرت جیسے کہنے مشق صحافی کی سرپرستی اور ان کا ’’میاں غنچہ‘‘ ہونے کی سعادت میسر رہی( صفحہ۴۰۲) ۔ ابولاثر حفیظ جالندھری کی ’’ ولیج ایڈ‘‘ کی پناہ میں بھی رہے۔ امریکہ میں فلم سازی کی تربیت حاصل کی ۔ ناکام فلم سازی کی وجہ سے بہت صعوبتیں اٹھائیں ۔ بائیں بازو کی صحافت میں ثابت قدمی دکھائی مگر بہت خوار ہوئے۔
امروز سے جو کچھ سیکھا مساوات میں ان کے کام نہ آیا ۔ مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی ۔ اپنی ناکام زندگی کا سارا الزام انہوں نے اپنے ’’ جینیٹک کوڈ ‘‘ پر دھرا ہے مگر اپنی ناکامیوں پر انہیں کوئی پشیمانی بھی نہیں ۔ ایں گناہیست کہ در شہرِ شما نیز کنم پر ان کا پختہ ایمان ہے۔ تقریباً ۸۹۰ صفحات کی اس طویل سرگزشت میں بیسویں صدی کی سیاسی اور سماجی اتھل پتھل کی کہانی بڑی چابک دستی سے بیان ہوئی ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے عوامل ‘ ۱۹۴۷ کا قیامت خیز قتلِ عام‘ قیام پاکستان کے بعد بنیاد پرستوں کی اسے اسلامی ریاست بنانے کی سازشیں‘ کمیونزم اور سوشلزم کی باتیں ‘ قیام پاکستان کے ابتدائی دور سے لے کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک کے سیاسی حالات‘ بھٹو کی سوشلزم کی ناکامی اور پھر ضیا ء الحق کے دور کا لمبا ابتلا۔
احمد بشیر نے یہ سب کچھ بڑی خوبی سے کہہ دیا ہے ۔پڑھنے والے کی دلچسپی بھی بدستور قائم رہتی ہے مگر احمد بشیر کے نام کے ساتھ جس بے خوفی اور برملا گوئی کا تصور وابستہ ہے وہ سامنے نہیں آتی۔ در اصل اس سرگزشت سے پہلے احمد بشیر نے اپنے سوانحی ارادوں کا اظہار اپنی خاکوں کی کتاب ’’ جو ملے تھے راستے میں ‘‘ کیا تھا اس سے یہ امید بندھی تھی کہ وہ جس بے خوفی اور ظالمانہ صاف گوئی سے اپنے دوستوں یاروں عزیزوں کے بارہ میں لکھ رہے ہیں ان کی اپنی خود نوشت اس اسلوب کا معرکہ کا نمونہ ہوگی مگر ایک تو یہ سرگزشت ’’سرگزشتِ اسیرِ انا‘‘ نکلی تس پر ’’ رخِ زیبا پر‘‘افسانوی ادب کا پردہ تنا ہؤا ملا ۔ ’’جمال ‘‘ کے پردہ میں ’’ قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں ’’ نہیں ‘‘ نکلا‘‘۔ دونوں باتیں احمد بشیر کے قاری کے لئے غیر متوقع تھیں اور اس لئے رد عمل بھی غیر متوقع ہے ۔
احمد بشیر کواچھوں کو اچھا کہنا بھی آتا ہے اور اچھوں کو برا کہنا بھی اس لئے اچھے اچھے اس سے خوف زدہ رہتے ہیں اور یہی کہتے ہیں نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی ۔ اس نے صنفِ نازک کو کبھی نازک نہیں سمجھا اس لئے انہیں کسی رو رعایت کا مستحق نہیں گردانا۔ اس کے بے باک قلم نے دوستوں کی بیویوں تک کو اپنی بے رحم صاف گوئی سے مجروح کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا اور ایسے بہت سارے کارنامے اس نے ببانگِ دہل ڈنکے کی چوٹ انجام دئے اور کبھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی ۔
صحافت میں بھی اس کے نظریاتی بندھن کبھی اس کی صحافت میں حائل نہیں ہوئے ۔ اس نے زہرِ ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا مگر قند کو زہرِ ہلاہل کہنے کا حوصلہ اس میں ہمیشہ رہا۔ اب اس کی خود نوشت کا چرچا ہؤا تو لوگ منتظر تھے کہ دیکھیں یہ بے باک شخص اپنا حساب کیسے بے باق کرتا ہے ؟ مگر حیف کہ اس نے اپنی مردانگی کا ثبوت دینے اور کھلے دل سے اپنی سرگزشت عام کرنے کی بجائے ’’ ناول ‘‘ کا گھونگھٹ نکال لیا بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بولعجبیست! اس کی مثال احمد بشیر کی ڈکشن میں یہی دی جا سکتی ہے کہ احمد بشیرنے اپنی عمر دوسروں کے لنگر لنگوٹ کھول کر انہیں عریاں کرنے میں صرف کر دی مگر اب اس نے اپنا لنگوٹ کھولا ہے تولوگوں نے دیکھا ہے کہ اس نے اپنے ننگ پر افسانوی ادب کا مہین پردہ ڈال رکھا ہے ۔
پنجاب کے صحافتی بڑوں میں عبد المجید سالک کا نام نامی بہت نمایاں ہے مگر احمد بشیر نے ان سے انصاف نہیں کیااور اپنے بغض کا اظہار کرنے کے لئے سالک صاحب کو سازشی اور نہ جانے کیا کیا کہہ گذرا ہے’’ ملک عبد المجید مولانا چراغ حسن حسرت کے نہایت محترم دوست تھے وہ صحافت میں ان سے سینئر تھے اور ان کا کمال یہ تھا کہ صحافت میں مزاحیہ کالم کی ابتدا انہوں نے کی تھی اس لئے مولانا ان کا ازحد احترام کرتے تھے ۔ ۔۔۔ ملک عبد المجید کا لاہور کے ادیبوں شاعروں پر بڑا اثر تھا راج دربار میں بھی ان کی بڑی آؤ بھگت ہوتی تھی وہ مشرقی علوم میں کسی قدر دسترس رکھتے تھے مگر کوئی گہری بات ان سے کبھی سرزد نہ ہوئی ۔۔۔ ملک عبد المجید صحافت سے ریٹائر ہو چکے تھے اور گذارے کے لئے حکومت کے خفیہ فنڈ پر بھروسہ رکھتے تھے ۔۔ پنجاب کے گورنر سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی اور افسر بھی ان کی بات مان لیتے تھے ۔ ۔۔شروع شروع میں تو کسی نے خیال نہ کیا مگر آہستہ آہستہ جمال کو شبہ ہؤا کہ ملک عبدالمجید کسی خفیہ مشن پر ہیں اور وہ مشن ہے اخبار کا خاتمہ۔۔۔ پنجاب کے گورنر نے ملک عبد المجید کو جاسوس مقرر کر رکھا تھا اور ان کے ذریعہ وہ مولانا کو غلط سلط پیغامات دیتے تھے ‘‘ ( صفحہ۴۵۰) ۔
ان کی یہ بے تکی اور طفلانہ باتیں نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ احمد بشیر کی دیدہ دلیری واضح کی جائے ۔ اپنے مرشد کے ایک محترم دوست اور قابلِ احترام سینئر صحافی ساتھی جس کی لیاقت کی سارے جہان میں دھوم تھی ‘یہ سارے الزام انہوں نے محض اپنے ’’ شبہ‘‘ کی وجہ سے لگائے ہیں ۔ امروز کا بند ہونا کسی کی سازش کی وجہ سے نہیں تھا خود ان لوگوں کی وجہ سے تھا جن کے باب میں احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ’’ اخبار میں جمال کے ( یعنی احمد بشیر) کے علاوہ سب اہلِ زبان ہیں یا سفارشی‘‘ ( صفحہ۴۲۷)۔
سالک صاحب کی علمی قابلیت پر احمد بشیر جیسے ’’مبتدی‘‘ کا محاکمہ کہ ان سے کوئی گہری بات سرزد نہ ہوئی خود کہنے والے کی اتھلی طبیعت کی گواہی دیتا ہے۔ سالک صاحب سے تو اقبال پر کتابیں سرزد ہوئیں‘ ان کی’’ سرگزشت‘‘ اور ان کے فارسی دیوان ’’ راہ و رسمِ منزلہا‘‘کی چار دانگِ عالم میں دھوم رہی مگر احمد بشیر کو کچھ سجھائی نہ دیا؟ گر نہ بیند ازاں را شپرہ چشم ۔ چشمہ ء آفتاب را چہ گناہ؟ جمال کو تو صرف یہ تکلیف ہے کہ اس کی نوکری جاتی رہی ۔اس نے یہ بات کہتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ اردو کی صحافتی تاریخ میں اس کے معتوب ملک عبد المجید کا کیا مقام ہے ؟اور اس کا دامن کسی خفیہ فنڈ سے داغدار نہیں ۔اور یہ کہ خودیہ باتیں لکھنے والے کا دامن آگے سے دریدہ ہے ۔
قدرت اللہ کی نوازشوں کو تو لکھنے والے نے بڑے فخر سے بیان کیا ہے ۔ ڈپٹی سکرٹری صاحب کی بات تو انہوں نے خود روایت کی ہے ’’ یہ فلمی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں انہیں قدرت اللہ صاحب نے دوستی کی بناپر اچانک فلم ایڈوائزر مقرر کر دیا ہے ۔ باہر کے آدمی ہیں ‘‘ ( صفحہ۸۲۳) اور باہر کا یہ سفارشی آدمی بیسویں گریڈ کی کرسی پر بیٹھا رہا اس میں اسے کوئی خفیہ فنڈ یا اقربا پروری نظر نہ آئی؟ ۔ تمہاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی ۔ وہ تیرگی جو مرے نامہ ء سیاہ میں ہے ۔
اس کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں ’’ابوالاثر‘‘ حفیظ جالندھری کی ’’ ابوالاثریوں‘‘ کا ذکر ہے ۔ ’’ انہوں نے جمال کو جاتے ہی بتا دیا کہ قائد اعظم اہم سیاسی امور میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے ‘‘ ۔ اور یہ کہ ’’ فسادات میں میرے انتالیس رشتہ دار تہِ تیغ ہوئے میری دادی رانی رحیم بی بی کی حویلی لٹی میرے رانگڑ راجپوت کے خاندانی آثار ‘ نوادرات‘ منقش طپنچے‘ کھانڈے اور برچھے جن پر سورماؤں کے نام کندہ تھے لوٹ لئے گئے ‘‘(صفحہ ۵۱۲)۔
پھر بیدل صحرائی ( ابنِ انشا) نے ساری بات کھول دی ’’ فسادات کے زمانہ میں تو وہ شملہ میں مقیم تھے ۔ جالندھر میں ان کا کوئی رشتہ دار تھا بھی تو بھی اس کو آنچ نہ آئی کیونکہ مشرقی پنجاب میں جالندھر واحد شہر ہے جہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہی نہیں۔‘‘ وہاں ابوالاثر کے ’’ بزرگوں کا ترکی ٹوپیاں دھونے کا ایک اڈا خلافت کے زمانہ سے چلاآتا تھا مگر پھر جناح کیپ کا رواج ہو گیا ۔ لال ٹوپی کوئی پہنتا ہی نہیں تھا ان کی مہارانی دادی کی کون سی حویلی لٹی؟ اور وہ ہاتھی گھوڑے کون لے گیا جو اس بڑھیا دھوبن کے محل کے آگے جھولتے تھے ؟ ۔۔۔ ابوالاثر نے جھوٹ بولنے میں کمال پایا ہے وہ بڑے دھڑلے سے گپ مارتے ہیں اور کبھی کبھی وہ خود اس پر یقین کر لیتے ہیں ‘‘ ( صفحہ ۵۳۷)۔
کہتے تھے انہیں پاکستان میں سوائے اردو بازار کی ایک دکان کے اور کچھ نہیں ملا؟ ’’ اردو بازار میں جو دکان انہیں ملی تھی وہ سامان سے بھری ہوئی تھی اور پھر لاہور میں ان کی دو کوٹھیاں پہلے سے موجود تھیں ماڈل ٹاؤن میں۔ حکومت مغربی پاکستان نے ان کی تا عمر پنشن لگا دی ہے۔ ان کا بینک کبھی خالی نہیں رہا ۔۔۔‘‘غرض ابوالاثر صاحب کی شخصیت کا کوئی پہلو انہوں نے تشنہ نہیں رہنے دیا ۔اور یہ سب ایک محرمِ رازِ درونِ میخانہ کی باتیں ہیں ۔
ممتاز مفتی سے ان کاتعارف جوانی ہی میں ہو گیا ۔ اس لئے بلاخوفِ تردید کہا جا سکتاہے کہ ان کی ساری جنسی علتوں کاسرچشمہ ممتاز مفتی کی نفسیات دانی تھی ۔جیسی گندی سیتلا ویسے پوجن ہار۔ جمال نے جوش صاحب کی طرح بار بار مختلف عورتوں پر رکھ کر اپنے جمالِ دلنشیں کا تذکرہ کیا ہے اور یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ساری عورتیں انہیں دیکھتے ہی ان پر فریفتہ ہو جاتی تھیں اور اس میں انہوں نے کسی ایک کو بھی معاف نہیں کیا بقول شخصے جس نے بھی ان کی راہ کاٹی وہ اسے اس کے ’’کیفرِ بدکردار‘‘تک پہنچا کر رہے ۔اوران لڑکیوں کی اس خفیف الحرکتی کی توجیہات کا فریضہ ممتاز مفتی کو سونپ دیا ۔ ممتاز مفتی پیرِ تسمہ پا کی طرح ان کے سرپر سوار رہا۔
اس کتاب میں سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اشفاق احمد کہیں نظر نہیں آتا ۔ اگر وہ کہیں موجود بھی ہے تو اس پر افسانوی ادب کا اتنا دبیز پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ پہچانا نہیں جاتا ۔ کرشن چندر ‘ میرا جی ‘ صاف نظر آتے ہیں اور انہیں احمد بشیر نے افسانوی نام نہیں دیا ۔ ممتاز مفتی محض مفتی ہے اور قدرت اللہ شہاب محض قدرت اللہ ہے ۔ اسی طرح چراغ حسن حسرت محض چراغ حسن ہیں ۔خدا معلوم امروز کو ’آجکل‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔حمید اختروحید بن گیا ہے اور سید سبطِ حسن محض سید حسن۔ سجاد ظہیر صرف سید صاحب بن کر سامنے آئے ہیں ۔ فیض صاحب کو انہوں نے از رہِ کرم معاف کر دیا ہے۔
غرض ’’ دل بھٹکے گا ‘‘ احمد بشیر کی افسانوی خود نوشت ہی نہیں اس کی شخصیت کی بہت سی پرتوں کا انکشاف کرنے والی کتاب بھی ہے ۔ یہ کتاب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسروں کے بارہ میں بے رحم صاف گوئی کو اپنی جینیٹک مجبوری بتانے والا جینیٹک طور پر اتنا مجبور نہیں محض اس بگڑے ہوئے بچے کی طرح ہے جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اپنی صورت کو بگاڑ بگاڑ لیتا ہے ۔ احمد بشیر کو تصویر بنا نانہیں آتی محض صورت بگاڑنا آتا ہے ۔
♦
One Comment