ادا کا ر علاؤ الدین مر حوم ماضی کے بے مثال عوامی اداکا ر تھے جن کی پیدائش روالپنڈی میں ہوئی۔ اداکار ی او ر گلو کاری کے شوق میں لاہور کا رخ کیا جہا ں اس دور میں بھارتی فلم سازوں کا طوطی بول رہاتھا۔ لاہور میں جب کوئی زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی تو علاؤ الدین نے قسمت آزمائی کیلئے بمبئی جانے کی ٹھا نی اور پھر اپنے چند دوستوں کے ہمراہ بمبئی چلئے گئے ۔ کئی روز تک فلمی اسٹو ڈیو کے چکر لگائے، کام نہ ملا تو انہوں نے بمبئی کے قریب فلمی اداکاروں کے مر کزی علاقے دادر کے ایک ہو ٹل میں چند یو م تک ملازمت بھی کی۔ جہا ں ان کی ملاقات اے آر کار دار سے ہوئی ۔
اے آر کار دار کا بھی چو نکہ لاہور سے ہی تعلق تھامسلمان ہونے کے ناطے وہ مسلمان فنکاروں سے زیادہ لگا ؤ رکھتے تھے۔انہوں نے علاؤ الدین کو اپنے آفس بلایا ۔ جہاں موسیقارنوشاد علی سے ملاقات کرائی۔ اداکاری کے میدان قدم رکھنے کے لیے علاؤ الدین کومشکلات کا سامنا تھا۔ البتہ علاؤ الدین نے فوری فیصلہ کیا کہ وہ گلو کاری کے میدان میں قسمت آزمائے ۔ اپنا مدعا نو شاد علی کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے اسے اپنی فلم میں گلو کاری کیلئے بلایا۔ اور ایک کو رس میں گانے کا موقع دیا۔ کو رس میں شرکت کرنے کے باوجود علاؤ الدین کی انڈسڑی میں کوئی شناخت نہ ہوسکی تو پھر اے آر کار دار کے پا س پہنچ گئے کہ وہ اداکاری کو ہی اپنی منزل بنانا چاہتے ہیں ۔ آخر کار اس کی قسمت نے یاور ی کی اور بعد ازاں برصغیر میں ایک نام والا اداکار بھارتی فلم ’’میلہ‘‘میں کام حاصل کر نے میں کامیاب ہو گیا۔
علاؤ الدین کی جوانی کا دور تھا۔ لیکن انڈسڑی میں قدم جمانے کیلئے علاؤ الدین نے فلم میلہ میں ایک بوڑھے آدمی کا کردار اداکیا۔ وہ کردار ادکار امر کے والد کاتھاجس میں بھارت کے دوبے مثال فنکاروں نرگس اور دلیپ کمارنے اپنی زندگی کی لاجواب کردار نگاری کا مظاہر ہ کیاتھا۔ یہ فلم ہدایتکار ایس۔ یو ۔ سنی نے بنائی جو اس دور میں اے آر کار دار کے دست راست تھے۔ اس فلم میں علاؤ الدین کی پر فارمنس کو بے حد پسند کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود علاؤ الدین بھار ت میں زیادہ عرصہ قیام نہ کر سکے۔ کیو نکہ اس دور میں تقسیم ہند کی تحریک اپنے عروج پر تھی ۔ مسلما ن فنکار اپنی زندگی بچانے کیلئے چھپتے پھر رہے تھے۔
اس صورتحال کے پیش نظر علاؤ الدین نے لا ہور واپس جانے کا ارادہ کیا ور لاہور آگئے۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی انڈسڑی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی ۔ تقسیم ہند سے قبل ہی ہند و فلمساز اپنا سب کچھ سمیٹ کر بھار ت جارہے تھے اور جتنے بھی اسٹوڈیو اونر تھے انہوں نے اپنی مشینری بھار ت شفٹ کر دی تھی۔ اسٹوڈیو کی صرف دیواریں تھیں جنہیں بعد ازاں چند جنونی فلمسازوں اور ہد ایتکاروں نے دوبارہ تعمیر کیاجہاں بعدازاں کئی بے مثال فلمیں بنیں۔
علاؤ الدین کی فلمساز اور ہدایتکار نذیر سے بھارت میں قیام کے دوران اچھی علیک سلیک تھی نذیر بھی تقسیم ہند سے قبل اپنی بیوی اداکارہ سورن لتا کے ہمراہ پاکستان آگئے تھے۔پاکستان آنے کے بعد علاؤ الدین نے نذیر کی ایک پہلی سپر ہٹ فلم ’’پھیر ے ‘‘میں بطور ولن کا م کیا اور یہی و ہ فلم تھی جہاں سے اس کی اداکاری کی کامیابیوں کا دور شروع ہوااور پھر بطور ولن علاؤ الدین ہر دوسری فلم میں دکھائی دئیے۔
پاکستان کی فلمی تاریخ گواہ ہے کہ علاؤ الدین نے اپنی زندگی میں کئی بے مثال کر دار ادا کئے ۔ جن کی آج تک نظیر نہیں ملتی ۔ ان میں فر نگی ،زرقا ،سلمیٰ ،کرتار سنگھ ،راز ،پھنے خان کے علاوہ اوربھی کئے فلمیں ہیں۔ ان فلموں میں اس اداکار نے جس کر دار نگاری کا مظاہرہ کیا ایسی پر فارمنس کسی دوسرے اداکار کے حصے میں نہیں آئی ۔
فلم ’’پھیرے ‘‘کے بعد علاؤ الدین کو اداکار سنتوش کمار کے سامنے فلم’’انتقام ‘‘میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں اس اداکار نے ایک گڈریے کا کردار ادا کیا اور اس فلم میں اداکار اکمل مرحوم نے پہلی بار بڑی سکرین پر اپناچہرہ دکھایا۔اس فلم میں اکمل مر حوم کا معمولی سے ایکسڑا کا کر دار تھااور پھر بعدازاں اکمل مرحوم کو پاکستان کی فلمی صنعت میں پنجابی فلموں کا دلیپ کمار بھی کہا گیا۔
علاؤ الدین نے فلم ’’پھیرے ‘‘کے بعد تقسیم ہند سے متعلق ایک پنجا بی فلم ’’کر تار سنگھ ‘‘میں ایک سکھ کا کردار اداکیا۔ یہ فلم پاکستان اور بھارت میں یکسا ں مقبول ہوئی اس کی مقبولیت کی وجہ علاؤ الدین کا بطور سکھ گیٹ اپ اور اس کا لہجہ بہت پسند کیا گیا۔ بھارت میں مقیم سکھ بھی علاؤ الدین کو مسلمان ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ یہ شخص سکھ ہی ہے۔ اس فلم کے بعد پاکستان اور بھارت میں کئی اداکاروں نے سکھ کا کردار اداکیا۔ اجمل مرحوم فلم ’’ملنگی ‘‘میں سکھ بنے۔ سنی دیول ’’غدر ‘‘ میں سکھ بنے لیکن ایک اکھڑسکھ کے روپ میں علاؤ الدین کی اداکاری کے سامنے سبھی مات دکھائی دئیے۔
بطور ولن ایک فلم ’’آس پاس ‘‘بھی علاؤالدین کی زندگی کی چند یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور اس فلم میں لافانی کردار نگاری کی وجہ سے ا س اداکار نے پہلی بار نگار ایوارڈ حاصل کیا ۔ اسی طرح اشفاق ملک کی فلم ’’باغی ‘‘، مسعود پر ویز کی فلم ’’جھومر‘‘اور ’’کوئل‘‘میں بطور کر یکٹر ایکٹر نو ر جہاں کے والد کا کر دار ،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان کی چند مشہور فلموں میں بطور ولن علاؤ الدین کی ایک فلم ’’راز ‘‘بھی ہے جس میں اس اداکار نے جر ائم پیشہ کا کر دار ادا کیا ،جس میں انہیں اپاہچ دکھایا گیا۔
بطور کریکٹر ایکٹر پاکستان کی فلمی صنعت میں د و فنکار ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ ان میں علاؤ الدین اور طالش کے نام سر فہرست ہیں۔ بطور ولن اور کریکٹر ایکٹرکا م کر نے کے باوجود علاؤ الدین نے شباب کیرانوی کی فلم ’’مہتاب ‘‘میں مر کزی کر دار ادا کیا ۔بطور ہیرو،شباب پر و ڈکشن کے زیر تحت بننے والی فلم’’تیس مار خان ‘‘میں علاؤ الدین کے مقابل نئی اداکار ہ شیریں کو کاسٹ کیا گیا۔یہ فلم علاؤ الدین کی حماقتوں اور گانوں کی وجہ سے بہت پسند کی گئی جبکہ اس کے علاوہ پھنے خان میں بطور پھنے خان علاؤ الدین کا کر دار لافانی رہا۔ ’’لاڈو ‘‘میں بھی اس ادا کار نے اپنی پر فامنس سے قلم کو چار چاند لگا دئیے۔
علاؤ الدین نے ’’باغی میں اشفاق ملک کی فلم کا م کیا۔ بعد ازاں ان ہی کی ایک فلم میں اس اداکار نے بے مثال کر دار نگاری سے فلم بینوں کو چو نکا دیا۔ یو ں تو اس فلم کے لگ بھگ سبھی گیت یادگار رہے لیکن علاؤالدین پرپکچرائز گانا
کالی کالی رات میں بھیا برسات میں ،
گوراگورا ہاتھ دے دے کوئی میرے ہاتھ میں،
اللہ قسم مولا قسم
فلمساز و ہدایتکار اقبال شہزاد نے سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے ’’جھمکے ‘‘کو فلمی رنگ ’’بدنام ‘‘دیا جس میں علاؤ الدین کے مقابل نبیلہ ،نیلواور اعجاز نے کام کیا۔اس فلم میں بھی کہا جاسکتاہے کہ چند سطری افسانے کو علاؤ الدین نے اپنی لاجواب اداکاری سے جلابخشی ۔
یو ں توعلاؤ الدین کی زندگی میں کئی بے مثال کر دار ہیں۔ علاؤالدین کی فلمی صنعت کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ بہت ہی ہنس مکھ فنکار تھے۔ انکی زندگی پر سکون گزر رہی ہی کہ اچانک ان کے جو ان سال بیٹے کی موت نے اس فنکار کو بوڑھا کر دیا۔ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا اور اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اوروہ اداکار جو ہر وقت چاک و چو بند دکھائی دیتا تھا، بجھ سا گیا،خاموشی اور غم نے اس فنکار کو بیمار کر دیا اور وہ بستر سے جالگا ۔ طبعیت سنبھلی تو وہ فلمساز جن کے گھر علاؤ الدین نے دولت سے بھر دیے تھ ، وہ اس سے آنکھیں چرانے لگے۔ وہ اداکار جس کی فلم اسٹوڈیومیں آمدپر فلمساز و ہدایتکار استقبال کیا کر تے تھے،ان دروازوں کے باہر فلمسازوں سے ملاقات کیلئے علاؤ الدین کھڑا دکھائی دیا۔
راقم کی علاؤ الدین سے ایور نیو،باری اسٹوڈیو اور ان کے گھر میں ملاقاتیں رہیں ۔ وہ اکثر اس کا تذکر ہ بھی کرتے کہ ہمارے فلمساز وہدایتکار چڑھتے سورج کی پو جا کرتے ہیں اور جب کسی فنکار پر بڑھاپا آتا ہے تو اس سے آنکھ تک نہیں ملاتے ۔ اکثر یہ بھی کر تے تھے کہ ہماری انڈسڑی میں کام کرنیوالے کی قدر نہیں ،یہا ں وہ فنکار جب اسے کام کرنا آتاہے تو اسے فارغ کر دیتے ہیں ۔ پنجابی زبان میں ان کا کہا ہو ا جملہ ’’اتھے جیڑا منجھ جاندا اے ،وہ مک جانداہے‘‘۔
سنہ1946سے فلمی صنعت میں کام کر نے والا یہ عوامی فنکار 1983میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آج بھی فلمی صنعت کے چند بڑے اس فنکار کی اداکاری کے حوالے سے سٹوڈیو کی حدود میں بات کر تے ہیں، لیکن افسوس اگر یہ لو گ اس دور میں اس کا ساتھ دیتے ،اس کا سہارا بنتے تو شاید یہ شخص دو چار برس اور جی لیتا،ان فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے ہرفنکار کے ساتھ ایساہی کیا لیکن کسی فنکار نے ان سے سبق حاصل نہیں کیا کہ وہ وقت کے پجاریوں کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں۔
علاؤ الدین کی فلمی کیرئیر کی چند نا قابل فراموش فلمیں پھیرے،دو آنسو ،گھبرو،غیرت بھیگی پلکیں ،تڑپ ،دیدار ،رات کی بات ،مجرم،پتن ،محفل ،خزاں کے بعد ،پینگاں ،مرزا صاحباں ،باغی، آس پاس ،پھولے خان ،شیخ چلی ،کچیاں کلیاں،حسرت ،چھومنتر، بھروسہ ،دربار،آخری داؤ،آخری نشان ،تیرے بغیر ،کر تار سنگھ،راز،جائیداد جھومر ،گلشن ،کوئل،سلمیٰ،ساحل ،ڈاکو کی لڑکی، منگول،تین پھول،بارہ بجے ،شہید، مہتاب، بنجارن، سسرال، برسات میں ،قانون ،تیس مار خان۔سمیرا،عشرت ،جھلک ،ایک پر دیسی ایک مٹیار ،ملنگ، لائی لگ،ہڈ حرام ،پھنے خاں،چھوٹی سی دنیا،اک سی چور،زمین،مسٹر اللہ دتہ،سرحد ،ان پڑھ ،جنج،انسان،لاڈو ،نظام لوہار ،نغمہ صحرا ،کوہ نور، پارمالا، اعلان، ماں باپ، یتیم، دوروٹیاں،ہر فن مولا،مہندی ،باؤ جی ،چالباز ،گھر پیارا گھر،کنجوس، چن چودہویں دا،چودھویں صدی ،زرقا کو نج و چھٹ گئی ،یملا جٹ، کوثر ،انجان اور رنگو جٹ کے نام قابل ہیں۔