ڈاکٹر طاہر منصور قا ضی
حصہ دوئم
زیر نظر مضمون 14 جولائی 1789 کے انقلاب فرانس کے تناظر میں قلم بند کیا گیا ہے
انقلاب فرانس سے انسانی تاریخ میں چرچ کو قانونی زندگی سے علیحدہ کرنے کا ایک اور تجربہ کامیاب ہوا جیسا کہ اس سے پہلے پچھلی صدی میں
Peace of Westphalia
کے معاہدے کے تحت بھی ہو چکا تھا۔ چرچ کو ریاست سے علیحدہ کرنے کے اس نظریے کو سیکولرازم کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں چرچ کی جاگیرداری حیثیت ختم کر دی گئی اور اسے عوامی ریاست کا تنخواہ دار اور باقاعدہ حلف کے ذریعے عوامی قانوں کا مطیع کر دیا گیا۔ سیکولرازم کی وہ خاص شکل جو فرانس میں رائج ہوئی اسے “لائیستے ” کہا جاتا ہے۔ سیکولرازم دنیا میں ابھی تک مکمل طور پر رائج تو نہیں ہو سکا تا ہم یہ روشن خیالی کا آئیڈیل ضرور مانا جا چکا ہے۔
اسی انقلاب کے دوران قومی اسمبلی میں عوام کے ووٹ کے ذریعے بادشاہ کی طاقت کو محدود کرنے کا جمہوری نظریہ بھی واضح ہو کر سامنے آیا۔ انسانی حقوق سے متعلقہ ان سارے نظریات 26 اگست 1789 کو منظور کئے گئے ” آدمیوں اور شہریوں کے حقوق کے ڈیکلریشن” میں اکٹھا کر کے ایک قانونی حیثیت دے دی گئی۔ ڈیکلریشن سے متعلقہ بحث مباحثہ طول پکڑ گیا تو سترہ نقاط پر اتفاق کے بعد مزید بحث ختم کر دی گئی۔ یہ تمام نقاط بنیادی انسانی حقوق کو سماجی رہن سہن کی خشتِ اول تسلیم کرتے ہیں۔
اسی ضمن میں ایبی سیعس کی معرکہ آرا تحریر میں تیسری اسٹیٹ کا مقدمہ بڑی چابک دستی سے لڑا گیا ہے۔ سیعس کہتا ہے:
۔“1۔ تیسری اسٹیٹ کیا ہے؟ ہر چیز ہی تیسری اسٹیٹ ہے۔
۔ 2۔ آج تک کے سیاسی نظام سے اسے کیا مل سکا؟ بالکل کچھ بھی نہیں۔
۔ 3۔ تیسری اسٹیٹ آخر کیا چاہتی ہے؟ یہ سیاسی اور سماجی نظام میں کچھ بننا چاہتی ہے۔ “
سیعس نے اعلان کیا، ” تاریخ ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے کہ تیسری اسٹیٹ سماج کے اندر ہر چیز ہے اور اشرافیہ؟ اس کی حیثیت ایک لفظ سے زیادہ نہیں ہے ۔۔۔ سماجی نظام کے اندر مراعات یافتہ گروپس کی کیا صورت ہے؟ یہ گروپ کینسر جیسا موذی پھوڑا ہیں جو تکلیف دیتا ہے اور بیمار اور کمزور جسم کی طاقت کو اندر سے کھا جاتا ہے۔ اس مراعات یافتہ پھوڑے کا تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ”
انقلاب نے سماجی اور ذاتی حقوق کو بنیادی “فطری حقوق” مانا جن کے تحفظ کے لئے بادشاہ کی اتھارٹی اور مشیت غیرضروری قرار دے دی گئی۔ ان حقوق میں مذہبی آزادی، پریس کی آزادی، سیاست میں نمائندگی کے لئے ٹیکس، ناجائز حد تک متشدد سزاوَں پر پابندی اور حکومتی کارندوں پہ احتساب جیسے نقاط شامل تھے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اس دور میں سماجی حقوق کی طرف تو پیش رفت ہوئی مگر سیاسی حقوق بےشمار لوگوں تک نہ پہنچ سکے جن میں عورتیں، غریب عوام، ملازمین اور وہ لوگ جو جائیداد کے بغیر تھے۔ اس تناظر میں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ انقلاب فرانس کو کسی طور بھی صرف رومانوی نظروں سے دیکھنا درست نہیں۔
انقلابِ فرانس کا یہ دور جو بستیل قلعہ پر 14 جولائی کے حملے سے شروع ہوا تھا، اگست 1792 تک جاری رہا۔ اس پہلے دور کو بجا طور پر انقلاب کا لبرل اور روشن خیالی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے واضح ہوا کہ یہ دور انقلاب کا معتدل دور تھا۔
اس موقع پر یہ بھی یاد رہے کہ انقلاب جس بہبود، اقدار اور معیارات کی آس دلاتا ہے انہیں حقیقت کا روپ دینا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ جس طرح حقیقی معنوں میں امید افزا ہونے میں وقت لگتا ہے اسی طرح امیدوں کو بار آور ہونے میں بھی ایک زمانہ لگتا ہے۔ انقلابِ فرانس میں بھی یہی ہوا۔ سماجی تبدیلی کی سست روی، انقلابیوں کی تُند خیزی کے صبر کا پیمانہ جلد ہی لبریز کر گئی۔ صرف تین سالوں کے اندر معتدل مزاجی نے مات کھائی اور انتہا پسندی نے انقلاب کے سر کش گھوڑے کی باگ سنبھال لی۔ انقلاب کے پیش روءں میں جیکوبی گروپ جو کہ شروع میں معتدل تھا، اس نے اور “سانس کُولات ” گروپ نے ساتھ مل کر انتہا پسندی کے اقدامات کرنے شروع کر دیئے جس میں معمولی سی بات پر حکومتی اہلکاروں اور انقلاب برپا کرنے والے ساتھیوں کا سر قلم کرنا روز کا معمول ٹھہرا۔
وہ لیڈر اور دانشور جو انقلاب کا پہلا روشن خیال استعارہ تھے اُن میں سے کئی ایک پر یہ الزام لگا کہ وہ انقلابی نہیں رہے اور کئی لیڈروں پر یہ الزام تھا کہ ان کے اندر انقلاب کی روح ناکافی ہے ، اُن کے سر نہایت عجلت میں قلم کر دیئے گئے۔ اس طرح یہ سب لوگ اپنے ہی برپا کئے ہو ئے انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اس وجہ سے 1792 – 1794 تک کا زمانہ انقلاب کا تشدد اور دہشت کا دور کہلاتا ہے۔ فرانس کے بادشاہ لوئی (16) اور ملکہ کو بھی اسی دور میں 21 جنوری 1793 کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
دہشت کے اس دور میں ‘میکس میلاں روبےسپیئر‘ وکیل اور انقلابی سیاست دان کا کردار بہت اہم ہے۔ انقلاب کے ابتدائی مہینوں سے ہی یہ عام مانا جانے لگا تھا کہ انقلاب روبے سپیئر کی زبان سے بولتا ہے۔ اس وقت روبےسپیئر مستقبل کی گورنمنٹ کی دراز دستی کے امکانات سے خائف تھا، وہ سزائے موت کا مخالف تھا۔ وہ عوام کی معاشی فلاح کا حامی اور اس کے لئے قانونی جواز مہیا کرنے والوں میں صف اوّل کا دانشور تھا۔ اُس نے فرانس اور فرانس کی کالونیوں میں غلامی کے خاتمے کے لئے بھی بہت کام کیا۔
مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسی کے زیرِ نگرانی تقریبا” 40000 لوگوں کے سر تن سے جدا کیے گئے۔ یہی روبےسپیئر انقلاب کو استحکام دینے میں ایک جابر اور آمر بن بیٹھا تاوقتکہ وہ خود بھی دوسرے انقلابیوں کی نظروں میں کھٹکنے لگا ۔ آخر کار 28 جولائی 1794 کو اس کا اور اس کے کئی قریبی ساتھیوں کا بھی کسی مقدمے کے بغیر ہی سر قلم کر دیا گیا۔ یوں یہ تاریخی کہاوت بھی سامنے آئی کہ “انقلاب اپنے ہی بچوں کو نگل جاتا ہے“۔
سنہ1794 سے 1799 تک کا زمانہ تھرماڈورین دور کہلاتا ہے جس میں سماجی اور سیاسی اصولوں کو ایک بار پھر نئے سرے سے ترتیب دیا گیا۔ روشن خیال لبرل سیاست اور حقوق و قوانین کی عام آدمی تک رسائی جیسی اقدار جو انقلاب کے پہلے دور کی مرہونِ منت تھیں ، سبھی کچھ واپس لے لیا گیا۔ سیاسی عہدے کے لئے دولت اور رسوخ پھر سے بنیاد ٹھہرے۔ ووٹ کا حق تو پہلے بھی سو فیصد عوام تک پہنچ نہیں پایا تھا، اسے صرف مردوں اور دولتمندوں تک محدود کر دیا گیا۔
اس جگہ انقلاب فرانس سے متعلقہ دو نظریہ سازوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ کارل مارکس اور ایلکسی ٹوکوِل۔ یہ دونوں اصحابِ دانش ہم عصر تھے۔ مارکس اور اینگل کی کتاب کمیونسٹ مینیفسٹو اور ٹوکوِل کی کتاب “اولڈ رجیم اینڈ فرنچ ریولیوشن” دونوں 1848 میں شائع ہوئیں۔
مارکس کے تجزیے کے مطابق یہ بورژوا انقلاب تھا جس نے فرانس میں فیوڈالزم کا شیرازہ بکھیر دیا۔ اس سے آنے والے سالوں میں سرمایہ داری نظام کی بنیاد پڑی جو مستقبل کے سوشلسٹ انقلاب کی تمہید ہو گا۔ ٹوکوِل نے سسٹم کی سطح پر تو ایسی کوئی پیشگوئی نہیں کی مگر تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سے اس نے یہ ضرور کہا کہ انقلاب سے پہلے ریاستی مراعات کے نتیجے میں، اس کے بل بوتے پر ریاست کے برابر دوسری کلاسیں بھی تھیں جن سے سماجی نظام چلتا تھا۔ انقلاب کے بعد ریاست اکیلی کھڑی ہے اور اپنی مضبوطی کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت اکٹھی کرنے کے لالچ میں رہتی ہے۔
ریاست کا یہ کردار مارکس کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں تھا۔ وہ بھی ریاست کو مراعات یافتہ طبقے کا آلہَ کار بتاتا ہے۔ دونوں فلسفی ریاستی طاقت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں لیکن ٹوکوِل میں مستقبل کے انقلاب کے لئے کوئی زیادہ اشتیاق نظر نہیں آتا۔
فرانسیسی انقلاب نے بے شک سماجی تبدیلی، جمہوری طریقہَ کار، انسانی حقوق اور سیکولرازم کے کئی سبق دئیے مگر آخر کار اشرافیہ نے اپنے عہدے، زمینیں، دولت اور سیاسی اختیارات واپس لے کر ہی دم لیا۔ چھوٹے کاشتکاروں کو بھی تھوڑا فائدہ ہوا مگر فیوڈل ازم کی واپسی سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کی طرف اگر کچھ پیش رفت ہوئی تو نہایت معمولی سی ہوئی ۔
قصہ کوتاہ ، 1799 میں جب نپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نئے سرے سے بادشاہت کو بحال کر دیا تو انقلابِ فرانس کی واقعاتی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ نپولین نے فرانسیسی ریاست کو پھر سے عوام کے استحصال کا آلہ بنا دیا اور اپنی فوجی مہمات کو فرانس کی سرحدوں باہر لے گیا۔ وہ ایک آمر بن کر بادشاہت کرنے لگا مگر انقلاب کی باز گشت سے اس زمانے کا پورا یورپ دہل گیا۔ دھیرے دھیرے 1848 تک انقلاب کی لہروں نے باقی یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں سے ایک نئی داستان کا آغاز ہوتا ہے۔
مگر نئی داستان کا آغاز کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اوپر کہے گئے لفظ “دھیرے دھیرے” پر تھوڑا غور کر لیا جائے۔ انقلاب فرانس جسے ہم ایک واقعہ سمجھتے ہیں کم و بیش دس سال پر محیط تھا۔ تاریخ دان الفریڈ کوبن تو یہاں تک پوچھتا ہے، آیا یہ ایک انقلاب تھا بھی یا نہیں؟ کیونکہ انقلابیوں نے اگر روشن خیالی کو اپنایا تو اپنے عمل سے ان نظریات کی نفی بھی کی۔ جہاں انہوں نے انسانی اقدار کی بات کی وہیں انہیں پامال بھی کیا۔ ان کا انقلاب روشن خیالی سے زینہ زینہ پھر مذہب کی دہلیز پہ جا پہنچا۔ اور کوبن کے الفاظ میں، “پوری کی پوری ایک نسل جس کی تربیت نیکی کی تعلیم سے ہوئی تھی، اُس کے اندر رچی بسی اچھائی اور برائی دونوں کو جس ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے، وہ ‘انقلابِ فرانس‘ ہے” ۔ختم شد
پہلا حصہ
انقلاب فرانس: مُضمرات اور سماجی ارتقاء۔1
♣♣
Bibliography
1. Politics, Culture, And Class in the French Revolution by Lynn Hunt
2. The French Revolution and Human Rights – Edited by Lynn Hunt
3. Revolutions by Stephan K. Sanderson
4. Aspects of The French Revolution by Alfred Cobban
5. The Democracy Reader
6. Revolutions – Edited by Jack A. Goldstone
7. States And Social Revolutions by Theda Skocpol
8. The Rights of Man, The Reign of Terror by Susan Banfield
9. The Days of The French Revolution by Christopher Hibbert
10. Reflections on The Revolution in France by Edmund Burke
11. Translation from English to Urdu – Oxford English Urdu Dictionary