ڈاکٹر صائمہ ارم
اردو ادب کی تاریخ کے سرمائے کا اولین ماخذ وہ بیاضیں ہیں جنہیں قدما تفریح یا ذاتی دیادداشت کے لئے رکھتے تھے۔انہی بیاضوں کی ترقی یافتہ شکل تذکرے ہوئے۔ اردو میں تذکروں کی تالیف کا آ غاز بارہویں صدی میں ہوا ۔گو ان تذکروں میں مبہم انداز سے شاعروں کے مختصر حالات اور تنقیدی اشارے ملتے ہیں مگر یہ تذکرے باقاعدہ ادبی تاریخ کا درجہ نہیں رکھتے۔
تذکروں میں مولوی کریم الدین اور ایف فیلن کے تذکرہ طبقات شعرائے ہند ، محمد حسین آزاد کی آب حیات ، عبدالحی کی گل رعنا اور عبدالسلام نددی کی شعرالہندخصوصی اہمیت کے حامل ہیں جن سے جدید روایات قائم ہونے لگتی ہیں۔ تذکروں کی بنیاد پر تاریخی عمارت تیار کرنے کا خیال سب سے پہلے گارسیں دتاسی کو ہوا۔ اس کے خطبات اور پھر تاریخ ادبیات ہندوی و ہندستانی( بزبان فرنچ) اسی کا نتیجہ ہیں۔
اس کا ایک طویل خلاصہ فیلن نے انگریزی میں کیا تھا ۔ کریم الدین نے اسی کو اردو میں طبقات شعرائے ہند کے نام سے منتقل کیا تھا جب کہ آب حیات کو تذکرے اور ادبی تاریخ نویسی کے درمیانی پل کی حیثیت حاصل ہے۔ رام بابو سیکسینہ کی تاریخ 1924میں منظر عام پر آئی تھی۔اسی برس مولوی محمد یحییٰ تنہا نے سیر المصنفین کے عنوان سے اردو نثر نگاروں کا تذکرہ بھی لکھا ۔اس سے پہلے اردو تذکرے عموماً شاعری تک محدود تھے اور شاعری میں بھی غزل کی طرف توجہ دی جاتی تھی۔
شاعروں کو پرکھنے کا پیمانہ صرف فارسی کا عروضی اور تنقیدی نظام تھا۔مقامی اصنا ف اور زبانوں سے بالعموم صرف نظر کیا جاتا تھا۔ اس رویے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اردو ادب کی جڑت طبقہ اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی ۔حکمران طبقات کے معیارات اور مذاق سخن کو سامنے رکھتے ہوئے ادب کی تخلیق کی جاتی تھی اور وہی ادیب معیاری سمجھتے تھے جو کسی نہ کسی دربار تک رسائی حاصل کر لیتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تذکروں اور ابتدائی ادبی تاریخوں ہی سے اس ادب کو جو عام لوگوں سے رابطہ رکھتا ہو ، کم تر اور غیر معیاری سمجھا گیا اور ادبی تاریخ میں شامل کئے جانے کے قابل قرار نہ پایا۔
یہ رویہ بالعموم بعد ازاں لکھی جانے والی تمام ادبی تاریخوں میں بھی پایا جاتا ہے اور ایسا ادب جو معاشرے کے عوامی طبقوں کی اولین ترجیح ٹھہرتا ہے وہ کسی ادبی تاریخ میں بار نہیں پاسکا۔ایسے ادب میں جاسوسی کہانیاں ، طلسم و تحیر کی فضا میں لپٹے ہوئے قصے اور نیم رومانی ، نیم تخیلی ناول اور ہم عصر سائنس فکشن شامل کئے جاسکتے ہیں جسے عرف عام میں پاپولر ادب بھی کہا جاتا ہے۔
ادبی مورخین کا تنقیدی شعور،اس امر کا فیصلہ کرتا ہے کہ ان کی لکھی ہوئی ادبی تاریخ میں کون سے ادیب کا ذکر کس مقام پر کیا جائے گا ۔ یہ تنقیدی شعور کم و بیش اسی ذہنیت سے متاثر ہے جو عوامی ادب کو کم تر اور گھٹیا تصور خیال کرتی ہے جب کہ پاپولر ادب قارئین کے ایک معتدبہ حصے کی نہ صرف ذہنی تشکیل کرتا ہے بلکہ اس ادب کے رحجانات کا جائزہ لے کر یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ ایک خاص عہد میں ایک خاص معاشرے کی عمومی سوچ و فکر کیا تھی اور اس معاشرے میں عہد بعہد تبدیلیاں کس طرح وقوع پذیر ہوئیں۔
یقینی طور پر ادیب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے اور عہد محض استثنائی مثالوں کی علامت نہیں ، یہ ایسا پہلو ہے کہ جس کی طرف کسی بھی ادبی تاریخ میں توجہ نہیں دی گئی ۔
♥
One Comment