عطاالرحمن عطائی
اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی ۔وہ پسلیوں پر بھی ہاتھ رکھ کر بڑی شدت سے تکلیف بھری سسکاری نکالتا رہا جیسے آگ کے شعلوں پر بالوں کا گچھا رکھا جائےاور ان بالوں سے عجیب نوعیت کی آواز نکلے۔
وہ شخص زمین پر لیٹے لیٹے اپنا چہرہ زمین کی طرف کئے ہوئے تھا شاید وہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر جھک کر اس سے ہم آغوش ہونا چاہتا تھا ۔
زمین بھی عجب شے ہے انسان جب بھی کمزوری محسوس کرتا ہے تو اس میں یوں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں پناہ لینے کی کوشش کرے اور اس کو تمام آفتوں سے محفوظ قلعہ سمجھتا ہے۔
پھر جوں ہی کسی نے اس کا سر ہاتھوں میں تھام کر اسے اٹھانے کی کوشش کی اور اسے بٹھایا تو اس کے رخسار کی ہڈی پوری قوت سے کسی پتھر سے ٹکرا چکی تھی۔جس سے گوشت کا لوتھڑا الگ ہوچکا تھا۔ اس زخمی کو شاید ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کی نظریں اس کے اس زخم کے راستے سے اتر کر اس کے درد سے کراہتے ہوے دل کو دیکھ لیں گی اور اس نے واپس چہرہ زمین پر رکھ کر زخم چھپایا۔
سنسان زیر تعمیر سڑک پر اس زیر آفت بندے کے ساتھ کئی آدمی کھڑے تھے۔ جس پر کوٹے ہوےپتھروں روڑی بچھائی گئی تھی۔ تھوڑے سے فاصلے پر اس آدمی کی موٹر سائیکل کھڑی تھی جو اس ضعیف العمر شخص کی طرح زخمی نہیں تھی۔ جسے تیز رفتار گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ اور بغیر رکے اس آدمی کو یہاں تڑپتا چھوڑ کر اسی تیز رفتاری سے اپنے منزل کی طرف چلتی بنی ۔
وہ شخص کراہتا رہا لیکن اس کو تھامنے والوں کے چہروں سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ مصیبت میں پھنس چکے ہیں ۔ اچھے بھلے اپنے کام کی طرف جارہے تھے۔ یہ کس کام میں پڑ گئے۔ وہ حتی المقدور اس کے خون سے اپنے کپڑے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کتنی گھناونی بے حسی کارفرما تھی وہاں۔
زیر تعمیر سڑک پر گاڑیاں جھولتی ہوی چلتی رہیں مگر منت بھرے اشاروں کے باوجود کوئی گاڑی نہ رکی۔ مجھے کائنات کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ آس پاس فارغ لوگوں کی تعداد بھی بڑھ چکی تھی ۔اور اس لاچار و چھلنی شخص سے سوالات بھی زیادہ پوچھے جانے لگے تھے۔ مگر اس کا اصرار تھا کہ مجھے شہر پہنچا دو ۔ وہاں پر میرا بیٹا مجھے سنبھال لے گا ۔
آخر کار کسی رحم دل نے اسے اپنی گاڑی میں لے جانے کی ہمت کی۔ مگر اس تمام دورانئے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ اس بے رحم معاشرے میں لوگوں کو یقین ہو چلا ہے ۔ کہ اگر تکلیف سے بچنا ہے یا خوش رہنا ہے تو ہنستے رہیے ، دوسروں کی تکلیف کا احساس اپنے پاس مت آنے دیجیے ۔ بس اپنا راستہ پکڑیے ۔بے حس رہیے اور خوش رہیے۔
♦
One Comment