اگست 1947میں جن لوگوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر اور بیانات پر نظر رکھنے اور سنسر کرنے کا عمل شروع کیا تھاان کے پاس دو دلائل تھے ۔ایک یہ کہ ان کی تقاریر اور بیانات سے کنفیوزن پھیلتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تقاریر اور بیانات دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے اہم تقریر گیارہ اگست کی تھی۔ یہ تقریر اس وقت آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئی۔ پاکستان سے متعلق پرنٹ میڈیا کے ایک حصے نے اسے من و عن چھاپا۔ اور کچھ حصے نے اسے سنسر کیا۔
تقریر کا متن ہزار بار دہرایا جا چکا ہے۔ لیکن یہ چونکہ لوگوں کے حافظے سے بہت تیزی سے محو ہو جاتا ہے اس لیے اسے بار بار دہراتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خصوصاً وہ حصہ جس میں قائد اعظم نے کہا کہ آپ آزاد ہیں۔آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں،یا پاکستانی ریاست کے اندر کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں یہ ریاست کا بزنس نہیں ہے۔اب میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بات کو ایک آئیڈیل کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہیے، اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے، مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا زاتی عقیدہ ہے۔ بلکہ سیاسی معنوں میں ایک ریاست کے شہری کے طور پر۔
جن لوگوں نے اس تقریر کو نا پسند کیا یا سنسر کی کوشش کی ان کا بیانیہ یہ تھا کہ پاکستانی ریاست کی تشکیل کی وجہ ہی یہی بتائی گئی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جو ایک وطن کے اندر نہیں رہ سکتیں، اور مسلمانوں کو اپنے عقائدکے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس الگ وطن کی تشکیل کا اعلان ہو تے ہی اس کے بانی رہنما یہ کہنا شروع ہو جائیں کہ ریاست کا کسی کے مذہب یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں تو اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمیں متحدہ ہندوستان میں رہنے میں کیا امر مانع تھا۔وہاں بھی کانگرس تو ہو بہو یہی بات کر رہی تھی کہ ریاست کا کام لوگوں کے ذاتی عقائد میں مداخلت نہیں ہے۔ تو پھر ہمیں اس آگ و خون کے دریا سے گزرنے کی کیا ضرورت تھی۔ متحدہ ہندوستان میں بھی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا ہوسکتا تھا کہ ہندو ہندو نہ رہتے اور مسلمان نہ رہتے، مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی معنوں میں۔ چنانچہ یہ جو ہم نے نیا وطن بنایا ہے اس کا یک بڑا مقصد ہے یا ہونا چاہیے تھا۔
یہ بیانیہ آہستہ آہستہ ریاستی اور سرکاری سر پرستی میں آگے بڑھایا جانے لگا۔ اور قافلے کے میر کارواں وہ لوگ بن گئے جو قائد اعظم اور پاکستان دونوں کے خلاف تھے۔ اس میں مجلس احرار اور جماعت اسلامی سر فہرست تھی جن کے لیڈروں نے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران واضح الفاظ میں پاکستان کو پلیدستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہا تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والوں کو بزدلی کے طعنے دئیے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہجرت کی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈیرے جما کر بنیاد پرستی اور مذہبی جنون پھیلانے کا بیڑا ٹھا لیا۔
ان کے خیال میں اب پاکستان تو بن چکا تھا اس لیے ضروری تھا کہ سرکاری سطح پر اس کے بنانے کے مقاصد کا بھی تعین کر لیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے قائد اعظم اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کو بے اثر کیا۔ ان کی کابینہ کو بے بس کیا۔ اور صرف دو برسوں میں قرار داد مقاصد کے ذریعے پاکستان کو ایک تھیوکریٹک ریاست کے راستے پر ڈال کر اپنی دانست میں اس کا قبلہ درست فرما دیا۔ قبلہ درست کرنے کی اس عظیم مہم کے دوران سب سے پہلا حملہ حق آزادی رائے پر کیا گیا۔ یہاں تک کہ خود قائد اعظم اور ان کا اپنا قائم کردہ اخبار ڈان اس کا شکار ہوئے۔
کئی اخبارات اور جرائد پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ا قلیتوں کو ذمی بنانے کے مطالبات شروع ہو گئے اور جوگندر ناتھ مینڈل جیسے لوگوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ قبلہ درست کرنے کے اس سفر میں ان کے ساتھ آمریت پسند طالع آزما بھی شامل ہوتے گئے۔ یہ سفر 1971 کے دردناک واقعات سے ہوتا ہوا ضیالحق کے مارشل لاء پر منتج ہوا۔اس طرح ان پارسا لوگوں کی رہنمائی میں قبلہ درست کرنے کا عمل یوں مکمل ہوا کہ پاکستان ایک مکمل تھیوکریٹک ریاست بن گئی۔
ریاست کا یہ روپ قائد اعظم کا خواب نہیں، ایک ڈراؤنا خواب ہے۔قائد اعظم کے بیانات اور ان کی تقاریر پر کڑی نظر رکھنے اور ان کو سنسر کرنے والوں کا بیانیہ آج کے پاکستان میں ایک غالب بیانیے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جو رواداری پر یقین رکھنے والی قوتوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
♦