آصف جیلانی
اڑتالیس سال قبل جب ایک آسڑیلوی یہودی مایکل روہن نے ، اسرائیلی حکام اور فوج کی ایماء اور اعانت کے ساتھ مسجد اقصی میں آگ لگائی تھی اور صلاح الدین ایوبی کے دور کاآٹھ سو سالہ تاریخی منبر جل کر خاکستر ہوگیا تھا توپورا عالم اسلام غم و غصہ کے جذبات کی آگ سے بھڑک اٹھا تھا اور فوری طور پر 57مسلم ممالک کے سربراہ رباط میں جمع ہوئے تھے ۔ 25ستمبر 1969کو شروع ہونے والی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر میں رباط میں تھا ۔یروشلم سے جو فلسطینی آئے تھے ان کا کہنا تھا کہ 21اگست کو مسجد اقصی میں آگ بجھانے کیلئے اگر یروشلم اور غرب اردن کے مسلم اور عیسائی فلسطینی فورا دوڑے دوڑے نہ پہنچتے تو پوری مسجد اقصی راکھ ہو جاتی اور آگ گنبد صغرا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ۔ وہ اس بات پر آگ بگولا تھے کہ فلسطینی جب آگ بجھانے کے لئے آئے تو انہیں روکنے کے لئے اسرائیلی حکام اور اسرائیلی فوج نے حرم الشریف کا دروازہ بند کر دیا لیکن بھپرے ہوئے فلسطینی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور آگ بجھائی۔
رباط کی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ، مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے مسلم سربراہوں کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور القدس کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرنے کے لئے مسلم اتحاد کا لاجواب عزم تھا۔لیکن سربراہ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہندوستان کی وجہ سے کانفرنس میں رخنہ پیدا ہوگیا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کا اصرار تھا کہ کانفرنس میں ہندوستان کو بھی شریک کیا جائے ۔ دلیل یہ تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے اور خلافت کی تحریک میں ہندوستان کے مسلم رہنماؤں نے اہم تاریخی رول ادا کیا تھا ۔اس تجویز کے تحت اسوقت یہ طے ہوا تھا کہ مراکش میں ہندوستان کے سفیر گر بچن سنگھ ۔ ہندوستان کے وفد کی قیادت کریں گے۔
پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے بھی شاہ فیصل کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ لیکن اسی رات کو گجرات میں احمد آباد میں خونریز مسلم کُش فسادات کی خبر آئی۔رباط میں موجود پاکستانی صحافیوں نے صدر یحییٰ کو یہ پیغام بھجوایا کہ ان حالات میں ہندوستان کی کانفرنس میں شمولیت سے پاکستان میں عوامی ناراضگی ان کے لئے سیاسی پریشانی کا باعث بنے گی۔یہ پیغام ملتے ہی رات گئے صدر یحییٰ نے پاکستانی صحافیوں سے کہا کہ وہ صبح سویرے رباط سے باہر تونس کے صدر ک بورقیبہ کے بنگلہ پر آجائیں۔ پاکستانی صحافی جب صبح سویرے بنگلہ پر پہنچے تو صدر یحییٰ خان نے بتایا کہ انہوں نے ، ہندوستان کی شرکت کے خلاف کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خبر کے عام ہوتے ہی ایک بحران پیدا ہوگیا اور اس دوران مراکش کے شاہ حسن، شاہ فیصل، اردن کے شاہ حسین کا یحییٰ خان کو منانے کے لئے آمد کا تانتا بندھ گیا۔ لیکن یحییٰ خان اپنے فیصلہ پر اٹل رہے اوراس کا خطرہ پیدا ہوگیا کہیں کانفرنس ہی نہ ٹھپ پڑ جائے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ کانفرنس میں ، ہندوستان ممبر کی بجائے محض مبصر کی حیثیت سے شریک ہو ۔ اتفاق سے ان دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبد العلیم مراکش کے دورہ پر آئے ہوئے تھے فورا ان کی قیادت میں ہندوستان کا وفد ترتیب دیا گیا اور اس وفدنے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی۔
رباط کی سربراہ کانفرنس میں عالم اسلام کے اتحاد اور مسلمانوں کے تاریخی ورثہ اور اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے مستقل اسلامی تنظیم کے ادارہ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جو پچھلے چند برسوں تک فعال رہا ، اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔
اب پچھلے دو ہفتوں سے مسجد اقصی کے دروازہ پر میٹل ڈیٹیکرز کی تنصیب کے خلاف فلسطینیوں کے احتجاج اور مسجد کے باہر نماز جمعہ کی ادائیگی پر نمازیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں تین فلسطینی نوجوانوں کی شہادت پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی خاموشی عجیب و غریب لگتی ہے خاص طور پراس امر کے پیش نظر کہ اڑتالیس سال قبل مسجد اقصی میں آتش زدگی پر رباط کی پہلی سربراہ کانفرنس میں جس شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا۔گذشتہ جمعہ کو ہزاروں فلسطینیوں نے مسجد اقصی میں جا کر نماز اد کرنے کے بجائے حرم الشریف کے احاطہ کے باہر نماز اد کی۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج ، مشین گنوں ، دستی بموں، اشک آور گیس اور آبی توپوں سے لیس ایسے کھڑی تھی کہ جیسے جنگ کے مورچے پر دشمن کا سامنا ہے اور بس اشارہ کی دیر ہے ، نمازیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اور ہوا یہی تین فلسطینی نوجوان ہلاک اور ڈیڑھ سو فلسطینی زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مقاصد ہسپتال پر بھی دھاوا بول دیا تاکہ زخمی فلسطینیوں کا علاج نہ ہونے پائے۔
نیتھن یاہو کی حکومت نے حرم الشریف کے احاطہ کے سامنے میٹل ڈیٹیکٹر کی تنصیب کے سلسلہ میں بہانہ پچھلے دنوں احاطہ کے باہر اسرائیلی پولیس کے دو سپاہیوں کے قتل کے بعد سیکورٹی کا بنایا ہے لیکن در اصل ان کا مقصد حرم الشریف کے احاطہ کے باہر اپنا قبضہ جمانا ہے اسی طرح جس طرح یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر کے ذریعہ ارض فلسطین پر قبضہ جمایا گیا ہے ۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو مسجد اقصی میں نمازکی ادائیگی سے بھی روکنا ہے اور یہودیوں کے اس گروپ کو شہہ دینا ہے جو اپنے آپ کو ٹیمپل ماونٹ وفا دار کہلاتے ہیں ۔ سنہ1990میں اس گروپ نے حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ گنبد صغرا کے نیچے یہودیوں کی عبادت گاہ تھی جو مسمار ہو گئی تھی،یہودی اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کی بازیابی کے لئے حرم الشریف کی اس پہاڑی کو کھودنا چاہتے ہیں۔ حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گاہ کی سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں 20 فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔
اس وقت جب کہ مسجد اقصیٰ کا بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے ، فلسطینی اپنے آپ کو یک و تنہا محسوس کرتے ہیں۔ عالم اسلام اپنے داخلی انتشار کا شکار ہے۔ ایک طرف یمن ، سعودی عرب کے اتحادیوں کے حملوں میں گھرا ہوا ہے اور یمن کی بندرگاہوں پر امریکی ناکہ بندی کی وجہ سے خوراک کی شدید قلت اور ہیضہ کی تباہ کن وبا میں گرفتار ہے ۔ دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ، قطر کے ساتھ معرکہ آرائی پر تلے بیٹھے ہیں ، جو فی الحال ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ادھر شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لئے خانہ جنگی کا سلسلہ برابر جاری ہے، جس میں مشرق وسطیٰ کے متعد د ممالک الجھے ہوئے ہیں ۔ عراق میں موصل میں داعش کی شکست کے بعد شہر میں گھرے ہوئے شہریوں کو جس قتل و غارت گری اور ظلم و ستم اور ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی وجہ سے فلسطینیوں کے بحران کے بارے میں سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
فلسطینیوں کو غرب اردن کے فلسطینی سربراہ محمود عباس کے رویہ پر بھی سخت تعجب ہے ۔ عین اُس وقت جب مسجد اقصی کا بحران شروع ہوا تھا وہ چین کے چار روزہ دورہ پر چلے گئے، انہوں نے مسجد اقصی کے سامنے فلسطینیوں کی شہادت پر افسوس کا تو اظہار کیا لیکن نہایت دبے الفاظ میں ۔
فلسطینیوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ دہشت گردی کے خلف تو سعودی عرب نے اسلامی فوجی اتحاد قا ئم کیا ہے لیکن ان فلسطینیوں کو جو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں اس سے انہیں نجات دلانے کے لئے اس اتحاد کو بروئے کار نہیں لایا جارہا ہے۔ ان حالات میں بے بس اور بے کس غم گسار مسلمان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’اک دیوار گریہ بناو کہیں‘‘۔
♦
2 Comments