محمد علی مسافر
یہ غالباً ۱۹۸۸ کی بہار کی ایک صبح تھی جب حسب معمول ہم نے سات کلومیٹر کے مسافت پیدل طے کرکے بالائی ہنزہ کے واحد ہائی سکول پہنچے تو سکول کے نزیک واقع ہوٹل میں غیرمعمولی چہل پہل پایا۔تجسس طفلانہ نے مجبور کیا تو دیوار سے ہوٹل کے صحن میں جھانکا اور سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا ہورہاہے۔
ہوٹل کے صحن میں تین چار بڑی بسیں کھڑی تھی اور آس پاس لوگوں کا ایک ہجوم تھا جنکے حلیے ہمارے لیے نئے اور دلچسپی کے باعث تھے۔ انھوں نے چیتا کلر کے فوجی نما وردی پہنے ہوتے تھے اور لمبی داڑی کے ساتھ ساتھ ان میں سے اکثرکے بال بھی لمبے تھے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہ فوجی نہیں ہیں۔ اسفتسار پر معلوم ہوا کہ وہ افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین ہیں۔ یہ مجاہدین اس علاقے میں کیوں آئے یا کیوں لائے گئے تھے ہمیں اس سے اس وقت نہ کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی سمجھ سکتےتھے۔ لیکن بعد میں کہا گیا کہ یہ ٹریننگ کے لیے آئے تھے۔اور کچھ کا خیال ہے کہ ۱۹۸۸میں گلگت میں ہونے والے بدترین مسلکی فسادات میں یہ مجاہدین بھی ملوث تھے۔
بہرحال مجاہدین کو دیکھ کر ہماری حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کی بھی انتہا نہ رہی۔ ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ مجاہدین آج ہماری آنکھوں کے سمامنے ہیں جن کے بارے میں ہم ہر روز ریڈیو پاکستان سے سنتے تھے کہ کس طرح بہادری سے یہ مجاہدین افغانستان میں اسلام اور انسانیت کا دشمن یعنی روس کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ہرخبر کا آغاز ان مجاہدین کے کارناموں سے ہوتا تھا اور ہر تبصرہ میں ان کے قصیدے گائے جاتےتھے۔
اس دن کلاس میں بھی مجاہدین ہمارے ذہنوں پر سوار رہیں اور من کر رہا تھا کہ ان کے بارے میں بات چیت ہوجائے۔ آخر کار ایک طالب علم نے ہمت کر کے استاد کو مجاہدین کی آمد کے بارے میں بتایا ان اسلام کے لیےان کی خدمت کی تعریفیں شروع کی۔ استاد تھوڑی تنقیدی ذہن کے مالک تھے کچھ دیر خاموشی سے سننے کے بعد گویا ہوئے کہ یہ کوئی اسلام کے خدمت نہیں کر رہیں بلکہ یہ ڈالر لے کر لڑ رہے ہیں۔ استاد کی اس بات سے ہمیں بہت دھچکا لگا اور ہم مزید سننا نہیں چاہتے تھے کہ وہ کوئی ہمارے ہیروؤں کو برا کہے۔
اس کے بعد ہمیں استاد پر شک ہونے لگا کہ وہ کمیونسٹ ہیں۔ کمیونسٹ ہونا اس وقت ہمارے لیے ایک گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کی اہم وجہ میڈیا اور معاشرہ کا اثر تھا۔ ریڈیو پاکستان اور کچھ اخبار کمیونسٹوں کو اور خاص طور پر روسیوں کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق ہیں۔ میڈیا کمیونسٹوں کی جو تصویر پیش کررہے تھااس سے لگتا تھا کہ ان کی کوئی اخلاقی اقدر نہیں ہے۔ یہ مذہب کے دشمن ہیں اور یہ دنیا پر قبضہ کرکے اس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس لیے مجاہدین ان کے سامنے آہنی دیوار ثابت ہورہے ہیں۔ حالانکہ ہم نے چینی کمیونسٹوں کو شاہرہ قراقروم تعمیر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ نہایت ہی محنتی اورفرض شناس تھے۔ ایک دہائی سے زیادہ پاکستان میں قیام کے دوران ان کو غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں بہت کم ملوث پایا۔
سکول کے بعد کالج میں اکنامکس پڑھنے کا شوق تھا۔ اتفاقاً اکنامکس کے جو استاد ہمیں ملا تھا وہ اکنامکس سے زیادہ مذہبیات کا استاد لگتے تھے۔ ان کے محبوب ترین موضوع دنیا کے معاشی نظام ہوا کرتا تھا۔ ان کے خیال میں دنیا میں صرف تین معاشی نظام ہیں۔ اسلامی معاشی نظام، سرمایا دارانہ معاشی نظام اوراشتمالی معاشی نظام۔ ان میں سب سے اچھا اسلامی معاشی نظام ہے۔ اس کے بعد سرمایا دارنہ معاشی نظام کیونکہ یہ اسلام کے قریب ترہے۔ اور سب سے برا معاشی نظام اشتمالی ہے کیونکہ یہ غیر فطری ہے۔ وہ اکثر مجاہدین کے ہاتھوں روس کے ٹوٹنے کی پیشن گوئی کرتے رہتے تھے۔
جب دسمبر ۱۹۹۱ کو سوویت یونین ٹوٹ گیا تو ہم سردیوں کی چھٹیا ں گزار رہے تھے۔ چھٹیوں کے بعد استاد محترم جب کلاس میں داخل ہوگئے تو ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکرہٹ تھی کیونکہ ان کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی تھی جس پر ہم ان سے کافی حد تک متاثر بھی تھے۔ استاد کی باتوں سے یوں لگ رہا تھا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد دنیا امن کا گہوارہ ہوگا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔
روس کے انتشار کے بعد وسطی ایشا کے مسلمان ممالک بھی آزاد ہوگئے اوران ممالک کے لوگوں سے روابط بڑھنے لگے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوگئی کہ روس کے زیر تسلط رہنے والے وسطی اشیا کے مسلمان، افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی اورسماجی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ مذہب پر بھی عمل کرتے ہیں اور ثقافتی سرگرمیان بھی جاری ہیں۔
یہاں کمیون ازم یا روس کی تعریف کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ کہنا کا مقصد یہ ہے جنرل ضیا اور اس کے بعد آنے والے نسلوں کی ذہن سازی اور تربیت قومی مفادات کے نام پر کسی طرح یک طرفہ انداز میں ہوتی رہی ہے۔ ہم جو ضیا دور یا اس کے بعد والے نسل ہیں ہمارے ذہنوں میں ایک خاص قسم کا بیانیہ ڈالا گیا جس کی بنیاد علم پر کم اور آئیڈیا لوجی پر زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل زیادہ تر سیاہ وسفید کی صورت میں سوچتے ہیں اور ان کے درمیان گرے رنگ نظر نہیں آتا۔ لوگ اور ملک یا تو ہمارا دشمن ہے یا ہمارا دوست۔ایک چیز یا تو مکمل درست ہے یا مکمل غلط۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی علم اورحقائق کی بنیاد پر چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کم ہوتی ہے اور جذباتی فیصلے زیادہ ہوتے ہیں۔
One Comment