اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یاہو نے جن کے ہاتھ غزہ کے محصور عوام اور ننھے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ، ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام پر جن کے گجرات میں سینکڑوں مسلم مرد، خواتین اور بچوں کے قتل عام کا انمٹ داغ لگا ہوا ہے ، اسرائیل کے ایک پھول کا نام’’ مودی ‘‘رکھا ہے۔ غزہ اور گجرات کے ننھے پھول ایسے بچوں کے ساتھ جو موت کی نیند سو گئے ،بلا شبہ یہ اسرائیلی پھول بھی شرم سار ہوگا جس کا نام مودی رکھا گیا ہے۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کا نتھن یاہو نے جس غیر معمولی والہانہ انداز سے خیر مقدم کیا ہے ، اسے دوظالموں کے ملاپ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک طرف مودی ہیں جنہوں نے آزادی کے لئے لڑنے والے کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی کی آگ بھڑکا رکھی ہے اور ان کے دور میں گائے کی رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر راہ میں چلتے ہوئے اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے انہیں جانوروں کی طرح گھیر کر مار مار کر ہلاک کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب نتھن یاہو ہیں جنہوں نے ایک طرف غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور غزہ کے عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیرکے وسیع منصوبہ کے تحت فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے کر کے ان کو بے گھر کرنے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم ، نریندر مودی پر اس قدر فریفتہ تھے کہ سایہ کی طرح ان کے دورہ میں ان کے ساتھ رہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل اور ہندوستان مل کر مغربی ایشیاء میں ایک نئی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ اور نریندر مودی نے اسرائیل کے صہیونی بانی تھیوڈور ہرزل کی قبر پر ہاتھ رکھ کر خراج عقیدت پیش کرکے سعودی عرب، ایران اور پاکستان کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ اسرائیل ارض فلسطین پر تسلط جمانے کے باوجود اس علاقہ میں اب اچھوت نہیں رہا ہے۔نتھن یاہو اس بات پر اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے نریندر مودی کو نہ صرف ہندوستان کا عظیم رہنما بلکہ عظیم عالمی رہنما قرار دیا۔
ہندوستان کے مبصرین کے نزدیک مودی نے اپنے آپ کو عالمی رہنما منوا لیا ہے۔ گذشتہ تین برس میں انہوں نے اٹھاون ممالک کے دورے کئے ہیں۔ انہیں اس بات کا اعزاز حاصل رہا ہے کہ و ائٹ ہاؤس میں وہ پہلے غیر ملکی مہمان تھے جن کے اعزاز میں عشایہ دیا گیا۔ اسرائیل میں ان کا امریکا کے صدر ٹرمپ سے بھی کہیں زیادہ شاہانہ انداز سے خیر مقدم کیا گیا۔ اور اب سعودی عرب کے فرمان روا اور اسرائیل کے وزیر اعظم ، مودی کی دعوت پر ہندوستان جائیں گے۔
پچھلے دس برس سے اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان سیکورٹی کے امور میں گہرا تعاون رہا ہے جس کے تحت ہندوستان ، ہر سال اسرائیل سے ایک ارب ڈالر کی مالیت کااسلحہ خریدتا رہا ہے۔ اس دورہ کے اختتام پر ہندوستان نے اسرائیل سے دستی انٹی ٹینک گایڈڈ میزائل کی خریداری کا اعلان کیا ہے ۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان سیکورٹی کے شعبہ میں تعاون کے تحت ہندوستان نے اسرائیل کی مدد سے لائین آف کنٹرول پر ویسی ہی باڑ نصب کی ہے جو اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر نصب کی ہے۔ اس دورہ میں یہ طے ہوا ہے کہ کشمیر میں شورش پر قابو پانے کے لئے ہندوستان کے فوجیوں کو تربیت دینے کے لئے بڑی تعداد میں اسرائیلی ماہرین ہندوستان جائیں گے۔
بحر ہند اور بحیرہ عرب میں اسرائیل اور ہندوستان کی بحری قوت میں اضافہ کے بارے میں منصوبے طے کئے گئے ہیں خاص طور پر گوادر میں بڑھتی ہوئے جہاز رانی کے پیش نظر۔ اس علاقہ میں بحری قوت میں اضافہ کا تعلق ، چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے سے بھی ہے جس کے لئے امریکا، اسرائیل اور جاپان کے درمیان بحری تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے۔دفاعی شعبہ میں یہ تعاون اپنی جگہ ، لیکن نریندر مودی کے اسرائیل کے دورہ نے در اصل دونوں ملکوں کے درمیان ۔ ہمہ جہت سیاسی تعلقات کی بنیاد رکھی ہے۔ مودی کے دورہ کو اسرائیلی رہنما ، مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست کی قطعی قبولیت سے تعبیر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مودی کی آمد پر نتھن یاہو نے کہاتھا ہم ستر سال سے اس دورہ کا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی اب ستر سال کے بعد ہندوستان کے وزیز اعظم کے دورہ کے بعد ہمیں منزل مقصود حاصل ہو گئی ہے۔
مودی کے دورہ میں سات اہم سمجھوتے طے ہوئے ہیں جن میں خلاء ، زراعت ، آب پاشی ، سائینس اور ٹیکنولوجی کے شعبوں میں تعاون اور چار کڑوڑ ڈالر کے ہندوستان اور اسرائیل کے مشترکہ صنعتی ریسرچ اور ترقیاتی فنڈ کے قیام کے سمجھوتے شامل ہیں۔
دورہ کے اختتام پر دونوں ملکوں کے مشترکہ بیان میں وہی منترا دہرایا گیا ہے جس کے بغیر ہندوستان کابیان مکمل نہیں ہوتا۔ مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے زور دیا ہے کہ دہشت گردوں، دہشت گرد تنظیموں، ان کے نیٹ ورک اور وہ جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں اور مالی معاونت کرتے ہیں ان کے خلاف مشترکہ کارراوئی کی جائے اور اس بات کویقینی بنایا جائے کہ دہشت گرد تنظیموں کو وسیع پیمانہ پر تباہی کے ہتھیار اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ ہو۔ یہ اشار ہ نام لئے بغیر پاکستان اور ایران کی جانب ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اس مقصد کے لئے اسرائیل اور ہندوستان کے دفاعی ماہرین کی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملہ پر کڑی نگاہ رکھے گی اور اگر ضرورت پڑی تو مشترکہ کاروائی سے گریز نہیں کرے گی۔
پاکستان اور ایران کے لئے یہ اقدام باعث صد تشویش ہے۔ خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ ہندوستان اور اسرائیل دونوں پاکستان اور ایران کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنے درپے رہے ہیں۔ یہ بات اسرائیل اور ہندوستان دونوں کے لئے باعث تقویت ہے کہ جہاں اسرائیل ، فلسطینیوں کے ساتھ امن کے عمل میں تیسرے فریق کی مداخلت کے سخت خلاف ہے وہاں ہندوستان بھی کشمیر کے مسئلہ پر تیسرے فریق کی مصالحت اور ثالثی کے خلاف ہے۔
ہندوستان نے بڑی عیاری سے ، اسرائیل ،فلسطین تنازعہ کے بات چیت کے ذریعہ حل کی حمایت کی ہے لیکن فلسطین کی ریاست کے قیام کی بنیاد پر دو ریاستوں پر مبنی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اپنے نئے دوست نتھن یاہو کو خوش کرنے کے لئے ، نریندر مودی نے اس دورہ میں فلسطینوں کو ایسے نظر انداز کیا ہے جیسے وہ اس سر زمین کا حصہ نہیں ہیں۔ مودی نے راحم اللہ کا رخ تک نہیں کیا جب کہ پچھلے دنوں فلسطینی رہنما محمود عباس نے دلی کا دورہ کیا تھا۔
نتھن یاہو نے اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان نئے تعلقات کو اسٹریٹیجک پارٹنر شپ سے تعبیر کیا ہے اور اسے شر کے خلاف خیر کی قوت کی دوستی قرار دی ہے ۔ یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کہ اس دوستی کی اصل نوعیت کیا ہے ۔ یہ دوستی کس کے خلاف ہے اور کس کے حق میں ہے؟۔
♠