انور عباس انور
فیصلہ آنا تھا سو وہ آگیا ہے ،اورفیصلہ بھی یہی آنا تھا،اس میں کسی کورتی بھر شک نہیں تھا حتی کہ شریف خاندان کو بھی اس کا ندازہ ہوچکا تھا، لیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانچوں ججز کا متفقہ فیصلہ ہوگا۔۔۔پہلی بات تو یہ کہ حکومت اور حکمران خاندان کے وکلا نے اپنے موکلان کو اندھیرے میں رکھا کہ فیصلہ تین جج صاحبان نے کرنا ہے، اور امید دلائی گئی کہ دو جج صاحبان پٹیشنیں مسترد کردیں گے اور ایک جج مخالفانہ فیصلہ دیں گے ،اسی یقین دہانی نے وزیر اعطم کو مستعفی ہونے سے روکا ہوا تھا۔
فیصلہ سنایاجا چکاہے،اور عدالت عظمیٰ کا پانچ زیرو سے فیصلہ اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے، اسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،تاریخ کا حصہ بننے والے ماضی کے کئی فیصلے جو اختلاف رائے سے دئیے گئے تھے جن پر عالمی سطح پر بہت تنقید ہوئی اور بعد میں کئی جج صاحبان نے اپنی تحریر کردہ کتب میں تسلیم بھی کیا کہ فیصلے دباؤ پر دئیے گئے، لیکن وہ متنازعہ فیصلے عدالتی اور تاریخ میں محفوظ بھی ہیں اور موجود بھی۔
ان فیصلوں میں سے ایک ذوالفقا ر علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ ہے جس میں 3-4سے ججوں نے فیصلہ سنایا، چار نے بھٹو کو سزائے موت دی جبکہ تین ججز نے انہیں بری کرنے کا حکم جاری کیا، لیکن اس کے باوجود عدالت عظمیٰ نے بھٹو کی نظر ثانی کی اپیل مسترد کردی۔
فیصلہ آنے سے قبل حکمران جماعت کے راہنما اور وفاقی و صوبائی وزرا یہ اعلان کرتے رہے کہ فیصلہ جو بھی آئے گا اسے من و عن قبول کیا جائے گا،لیکن تحلیل ہوجانے والی کابینہ کے چار پانچ وزراء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیصلہ کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا، اور اس فیصلے کو مولوی تمیزالدین، ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کیس کے فیصلوں سے تشبیہ دی ،اور کہا کہ اس فیصلے کو عالمی سطح پر عدالتوں میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکے گا،اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس فیصلے میں بہت بڑی خامیاں موجود ہیں،ان وزرا نے یہ بھی کہا کہ ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا‘‘ اربوں کی لوٹ مار کی باتیں کی گئیں لیکن نااہلی دو لاکھ روپے کو بنیاد بنا کر کی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے وزیر اعطم نواز شریف کے ساتھ وزیر خزانہ اسحاق ڈار،ان کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی نااہل قرار دیا ہے، اور نیب کو شریف خاندان یعنی وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز ،حسین نواز اور دختر مریم نوازشریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی سنایا ہے، عدالت عظمی نے ایک ایک ریفرنس اسحاق ڈار اور شیخ سعید، موسیٰ غنی،کاشف مسعود قاضی،جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
نواز شریف کی دختر مریم نواز نے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ ایک اور منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا‘‘ سابق وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے افسردہ دل اور چہرے کے ساتھ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا’’ وزیر اعظم نواز شریف اگلی بار چوتھے وزیر اعظم کی حیثیت سے وزارت عظمی کا حلف اٹھائیں گے‘‘ ایک سابق وزیر نے کہا’’نواز شریف اور عوام کو جدا نہیں کیا جا سکتا‘‘
وزیر اعطم کی نااہلی کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ باقی مدت کے لیے شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے اور پنجاب کی وزارت اعلی کے لیے حمزہ شہباز شریف یا رانا ثنا اللہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کی صورت میں افراتفری مچنے کی پشین گوئیا ں کرنے والے ناکام رہے، پاکستان بھر میں ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جو رپورٹ کرنے کے قابل ہو، کہا جا سکتا ہے کہ چڑیا نے بھی پر نہیں مارا،شاید وزیر اعظم کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلے پر احتجاج سے لاتعلق رہ کر عوام نے بھی ملک میں جاری مہنگائی، رشوت ،اقربا پروی،بدعنوانی،ناانصافی اور دیگر مسائل کے خلاف اپنا خاموش دھرنا دیا ہے۔
عدالت کے فیصلے پر حکمران جماعت کی آہ و بکا ،چیخ و پکار ،تنقید اور فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کی باتوں سے ریڈیو پاکستان لاہور کے معروف اینکر’’ نظام دین ‘‘کاایک واقعہ یاد آتا ہے، پولیس اور ریلوے کی کبڈی کی ٹیموں کے درمیان کبڈی میچ ریلوے سٹیدیم گڑھی شاہو میں ہو رہا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک پر اسلامی سوشلزم کا راج تھا، نظام دین اور چودہری صاحب اس میچ کی ریڈیو پر براہ راست کمنٹری کر رہے تھے، ریفری کے کسی فیصلے کوایک ٹیم نے ماننے سے انکار کیا، شور برپا ہوا، میچ رک گیا، اس موقعہ پر نظام دین( اللہ ان کی مغفرت فرمائے) نے کہا کہ جب کسی کو باپ ( منصف یا ریفری) مان لیا جائے تو پھر اس کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہیے ،نہ ماننے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سو ہماری مسلم لیگ نواز کو بھی احتیاط برتنی چاہیے۔
محترم سہیل وڑائچ نے اپنے فیض عام میں لکھا ہے ’ ’ اگر اس ملک میں حکومت چلانے کا کام منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی کرنا ہے توپھر سیاسی جماعتوں کو مضبوط اور سیاسی قیادت کو باعتماد بنانا ہوگا‘‘ میں اس میں اتنا اضافہ کرتا ہوں کہ اگر ملک کو آئین اور قانون کے تابع رہ کر اور منتخب نمائندوں کے ذریعہ نہیں چلانا تو جو جی میں آئے کھیل کھیلا جائے، ٹیکنوکریٹس لائے جائیں یا عسکری نظام سے کاروبار مملکت خداداد چلایا جائے۔
جب سے صحافت سے وابستہ ہوا ہوں لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ اسٹبلشمنٹ مضبوط سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی بجائے کمزور سیاسی قیادت اور ناتوانا سیاسی جماعتوں کو فروغ دینے کی اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرے، کیونکہ اسکی یہ پالیسی ملک ،قوم خود اس کے حق میں سود مند نہیں، مضبوط سیاسی لیڈر شپ اور عوام میں مقبول سیاسی جماعتیں ممالک کی مضبوطی ،قوم کی یکجہتی اور اتحاد کا موجب ہوتی ہیں، اور کمزور سیاسی قیادتیں اور جماعتیں اقوام اور مملکتوں کو کمزور کرنے کا باعث ٹھہرتی ہیں۔بھارت کی مثال ہی لے لیں جہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت مضبوط ہے اور جمہوریت بھی توانا اور تندرست ہے۔
سیاسی جماعتوں ،ان کی قیادت کوبھی یہ فیصلہ کرلینا چاہئیے کہ انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچ جاری رکھنا ہے، یا نہیں ؟ اگر تو اس سلسلے کو قائم رکھنا ہے تو پھر مولوی تمیزالدین ،ذوالفقار علی بھتو،محمد خان جونیجو اور اب نواز شریف طرز کے فیصلوں کو قبول کرنا ہوگا کیونکہ ایسی صورتحال میں ایسے ہی فیصلے آتے رہیں گے، ذوالفقا ر علی بھٹو پھانسی لگتے رہیں گے، نواز شریف جلاوطنی کے عذاب سہتے رہیں گے،اور مولوی تمیزالدین کاخوار ہونا ہمارا مقدر بنا رہے گا۔
اب تک کی پاکستانی تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا اپنی بالا دستی قائم رکھنے کی پالیسی نے ملک و قوم کو نقصانات پہنچانے کے سوا کچھ نہیں دیا)مشرقی پاکستانی کی علیحدگی ،بلوچستان میں بغاوت کے شعلے اس کی پالیسیوں کے ثمرات ہیں۔۔۔ اسٹبلشمنٹ اور کیا چاہتی ہے؟
♦