ہیرا منڈی، رقص کی محفلوں سے جسم فروشی کا مرکز کیسے بنی؟

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا ’ریڈ لائٹ‘ ایریا جسے سولہویں صدی میں مغل حکمرانوں نے آباد کیا تھا، کسی حد تک برطانوی راج  اور اب پاکستانی معاشرے میں حالیہ اسلامائزیشن کے نتیجے میں اپنا اصل روپ کھو چکا ہے۔

نصف شب کا وقت ہے لیکن پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں قائم بازار حسن کی تنگ گلیوں میں ابھی دن کا آغاز ہوا ہے۔ جہاں باقی دنیا سو رہی ہے وہیں ہیرا منڈی میں دکانیں سجائی جا رہی ہیں۔

 فضا میں پھیلتی دھیمی موسیقی، خوبصورت ملبوس زیب ِ تن کیے محرابی بالکونیوں پر کھڑی لڑکیاں اور گاہکوں کو ’ بہترین سودے‘ کی پیش کش کرتے اُن کے ایجنٹ۔ یہ بازار اپنے اندر جنوبی ایشیا کے روایتی ریڈ لائٹ علاقوں کے تمام پہلو رکھتا ہے۔

علاقے میں پھولوں کی دکانیں جا بجا ہیں۔ رقص کرنے یا جسم فروشی کے پیشے سے منسلک خواتین کے لیے پھول لے کر جانا یہاں کا دستور  ہے۔ مغل دور حکومت میں قائم کیا گیا یہ علاقہ موسیقاروں اور رقاصاؤں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ تب یہاں جسم فروشی نہیں ہوتی تھی۔ تاہم یہاں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بازار کا اصل روپ اب بگڑنے لگا ہے۔

 ہیرا منڈی کے ایک موسیقار گوگی بٹ کے مطابق یہ جگہ اب ویسی نہیں رہی جیسی کبھی ہوا کرتی تھی۔ بٹ کا کہنا ہے،’’ کبھی یہ علاقہ فنکاروں کا مرکز ہوتا تھا لیکن اب تو محض قحبہ خانہ بن کے رہ گیا ہے‘‘۔

بازار کی اس گہما گہمی میں ہیرا منڈی کی پرانی رقاصہ روبینہ طارق ایک گلی کے نکڑ میں ایک بینچ پر بیٹھی اپنے ماضی کی شان و شوکت کو یاد کر رہی ہے۔ روبینہ اب عمر کی پچاسویں دہائی میں ہے اور بقول اُس کے کبھی وہ یہاں کی معروف رقاصہ اور طوائف رہی ہے۔

روبینہ نے جو اپنی نوعمری میں قریبی شہر اوکاڑہ سے یہاں آئی تھی، جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ طوائفوں نے جسم فروش کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ یہاں اب کوئی رقاصہ نہیں رہی۔‘‘

سولہویں صدی عیسوی میں مغلیہ دور میں بھارت کے مختلف شہروں میں قائم ہیرا منڈی جیسے علاقے اشرافیہ کے لیے روایتی مجرے ، اور رقص کی محفلیں سجانے کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ امراء اپنے بیٹوں کو شرفاء کے ادب آداب سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی بر صغیر آمد کے بعد سے لوگوں میں روایتی مجرا کرنے والی رقاصاؤں اور جسم فروش طوائفوں کے درمیان تمیز تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ جنس اور رقص آپس میں خلط ملط ہو گئے اور ہیرا منڈی پر جسم فروشی چھاپ لگ گئی۔

لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس سے منسلک ندیم عمر نے بتایا،’’ طوائفیں نہ صرف خوبصورت ہوتی تھیں بلکہ رقص و موسیقی اور شاعری میں بھی کمال رکھتی تھیں۔ اور خود کو منوانے کے لیے وہ اپنی یہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتی تھیں۔ ہیرا منڈی کا کردار  برطانوی راج کے بعد تبدیل ہوا جب برطانوی حکمرانوں نے اسے اپنے فوجیوں کے لیے جسم فروشی کے اڈوں میں بدلنا شروع کیا۔ مزید تبدیلی تب آئی جب اسّی کے عشرے میں پاکستانی حکومت نے یہاں اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔‘‘

ملائیشیا اور دبئی میں رقص کے پروگرام کرنے والی سونم ملک کا کہنا ہے،’’ مجھے علم ہے کہ دبئی جیسی جگہوں پر جنسی استحصال کا خطرہ ہے۔ لیکن وہ پھر بھی قابلِ قبول ہے کیونکہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آخر میں مجھ پر بھی میری ماں کی طرح جو ہیرا منڈی میں ڈانسر تھیں، جسم فروشی کا لیبل ہی لگایا جائے گا‘‘ ۔

DW 

2 Comments