لاہور میں ہونے والے ایک دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم چھبیس افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کےترجمان محمد خراسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم کے خودکش بمبار نے لاہور میں موٹر سائیکل خودکش دھماکہ کیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کے جس علاقے میں یہ دھماکا ہوا ہے، وہاں ناجائز تجاوزات کے خلاف پہلے سے ہی پولیس کی کارروائی جاری تھی اور اس لیے وہاں پولیس تعینات تھی۔
بظاہر اس حملے میں پولیس اہلکاروں کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک خودکش کارروائی ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم تحریک طالبان پاکستان نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اس دھماکے کی وجہ جاننے کی خاطر تفتیشی عمل جاری ہے۔
جس جگہ یہ دھماکہ ہوا ہے وہ مصروف علاقہ ہے جبکہ حکومت پنجاب کے ترجمان ملک احمد کے مطابق یہ علاقہ ریڈ زون میں آتا ہے جہاں پر وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے۔
دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
ارفع ٹاور میں کام کرنے والے ذیشان نے بی بی سی کے نامہ نگار عمر ننگیانہ کو بتایا کہ ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ارفع ٹاور کے کچھ شیشوں میں کریک آ گئے۔ میں نے باہر دیکھا تو ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی تباہ حالت میں کھڑی تھی۔‘
ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا۔ ’پھر گرد و غبار تھا اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں ‘۔
دوسری طرف افغانستان کے درالحکومت کابل میں ایک خودکش کار حملے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ خودکش حملہ پیر کو شہر کے مغرب میں شیعہ آبادی والے علاقے میں ہوا اور حملہ آور نے ایک ایسی بس کے قریب دھماکہ کیا جس میں وزارتِ کانکنی کے ملازمین سوار تھے۔
افغان وزارتِ داخلہ نے اسے ‘انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ حملہ انٹلیجنس سروسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیج اللہ مجاہد نے اپنی تنطیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
One Comment