میرے لیے استبول کی دنیا بھر میں شہرت یافتہ ایا صوفیہ کو دیکھنا بے حد دلچسپ اور خوبصورت تجربہ تھا۔ وہ سب پینٹنگ بہت دلچسپی لئیے ہوئے تھیں۔جہاں شہنشاہ کامنیوز 2 اور ملکہ آئرن تھیں۔کہیں شہنشاہ کونسٹینن منومیکبس اور ملکہ زوئے بیٹے کے ساتھ کھڑی تھیں۔کہیں وہ پیاری سی ورجن میری جسٹینن اور کونسیٹنن کے ساتھ تھیں۔بازنطینی دور کے آرٹ اور عقیدے کے شاہکار۔
اس کی تعمیر کی تاریخ دلچسپ اور بڑی ہی معجزاتی ہے۔چند لائنوں میں اس کا احوال سُن لیں۔ شہنشاہ کے خواب میں فرشتے نے آکر اس کا نقشہ پیش کیا۔کام کے طریق کار کی وضاحت کی اور ہدایت کی کہ پانچ ہزار مستری اور مزدور دائیں طرف اور اتنے ہی بائیں طرف کام کریں۔ایک مرحلے پر جب پیسے کی کمی آئی اور تعمیر رُک گئی۔فرشتہ کِسی ہیجڑے کے روپ میں آیا اور اُس غار تک رہنمائی کی جہاں سے ٹنوں کے حساب سے سونا ملا۔معجزوں کی تفصیل بھی بڑی لمبی چوڑی ہے۔عیسائیوں کی ہی نہیں ،مسلمانوں کی بھی۔
میرا خیال ہے مجھے سچائی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میرے اندر اس کے مسجد بننے کے عمل کی پسندیدگی کہیں نہیں تھی۔بعینہٰ اسی طرح جیسے مجھے مسجد قرطبہ میں گرجا گھر بنانا کبھی اچھا نہیں لگا۔آخر آپ تاریخ کے ساتھ کھیل تماشے کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں۔گو اسمیں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی فضاؤں و ہواؤں میں اذانوں کے دلکش سحر کی بازگشت مجھے ہانٹ کررہی تھی۔میرے اندر کی جذباتی وارفتگی میں میر ی مسلمانیت کا بھی کچھ دخل ضرور تھا۔اور مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی دونوں مختصرسی ملاقاتوں میں چند سیاحوں کی عیسائی ذہنیت کا بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھا کہ ان کے کیمروں کے فوکس حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اور اُن سے متعلق دیگر ہستیاں اور واقعات ہی تھے۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ سیاحوں میں اُس وقت اتفاقیہ طور پر زیادہ تعداد آرتھوڈوکس کھیتڈرل کے ماننے والوں کی ہو۔
چلیے اس بحث کو چھوڑیں۔اب پانچ سو برس سے مسجد کا چولا پہننے والی ایا صوفیہ کو ترکی کی جدید حکومت نے میوزیم کا درجہ دیتے ہوئے اسے مسجد اور گرجے کے جھنجٹ سے نکال کر اپنی روشن خیالی اور سیکولر پالیسی پر گامزن ہونے کا عندیہ دے دیا۔یہ اچھا ہی ہے۔جس کا جی چاہے وہ آئے اور اپنے دل کا رانجھا راضی کرلے۔
ہمارا ہوٹل وہاں سے قریب ہی تھا۔ سوچا چلتے ہیں۔ ایک دو گھنٹے کے آرام کے بعد پھر نکلیں گے۔ مگر بھوک زوروں پر تھی۔ کیا کھایا جائے؟ ایک سوالیہ نشان ۔ شکر ہے وہاں قریب ہی کنٹین تھی۔ دو ڈونر کباب سینڈوچ بنوائے ۔آئرن (لسی) کوترجیح دی۔
بھوک آداب نہیں جانتی ۔بڑی کڑوی حقیقت ۔کِس والہانہ بیتابی و شتابی سے منہ ماری کی۔پہلا لقمہ اندر گیا۔ہری مرچ کا کوئی ٹکڑا دانتوں تلے آگیاتھا۔سی سی کے ساتھ جو لطف آیا وہ بھی بے مثال تھا۔سوچا اِسے کھول کر تو دیکھوں۔نان کے ٹکڑے پر پہلی تہہ کریم کی تھی یا دہی کی۔پتہ نہیں چلتا تھا۔ٹماٹر کی چٹنی اپنا پتہ بتاتی تھی۔اِن سب پر ڈونرکباب اپنے پہلو میں ہر ی مرچیں لئیے قابض تھا۔ہم نے لپیٹ لیا۔
’’ہائے میں صدقے کتنا مزیدار ہے۔‘‘کہتے ہوئے دوسری بائٹ لی اور لسی کا گھونٹ بھرا۔
دفعتاً مجھے پڑھی ہوئی ایک بات یاد آئی تھی۔
’’ارے سیما ۔ایا صوفیہ کے بیرونی حصّے کی ایک دیوار میں ایک سوراخ ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت خضر ؑ نے اسمیں اُنگلی ڈال کر اس عمارت کا رُخ قبلہ کی جانب کردیا تھا۔بھئی وہ تو دیکھنا تھا۔‘‘
سیما نے اٹھتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
’’عمارت قبلہ رُخ ہوگئی۔یہ بات کافی نہیں دل کی تسکین کیلئے ۔مزید اسمیں نمازیں اور اذانیں بھی گونجیں۔ماشاء اللہ سونے پر سہاگہ۔تجھے رج ہی نہیں آنا۔چل ہوٹل ٹانگیں ٹوٹنے والی ہورہی ہیں۔اُس کی ایسی شاندار لتاڑ مجھے مُوت کی جھاگ کی طرح بٹھانے کو کافی تھی۔
میری غرض تو کمر سیدھی کرنے سے تھی۔ہاں سیماتھوڑی سی اُونگھ بھی چاہتی تھی کہ تازہ دم ہوجائے کہ پھر بس ،ٹرام یا میٹرو کِسی پر چڑھ کر تھوڑی سی اور آوارہ گردی کا پروگرام تھا۔میری بُری عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دن میں سونے یا آرام کرنے سے میں بڑی الرجک سی ہوں۔سیماتو لیٹتے ہی کَسی دوسری دنیا میں پہنچ گئی۔میں نے تھوڑی دیر پلسیٹے(کروٹیں) مارے پھر اٹھ کر لفٹ سے نیچے لاؤنج میں آگئی۔تپائیوں پر دو تین اخبار پڑے تھے۔چند چینی جاپانی بھی دکھتے تھے۔میں نے ان کی طرف توجہ دینے کی بجائے اخبارات کی پھولا پھرولی کیلئے ایک کو اٹھایا ہی تھا جب میرے عین سامنے آکر بیٹھنے والے فربہی سے ایک مرد نے مجھ سے اُردو میں “پاکستان سے ہیں۔“کا پوچھا۔
ظاہر ہے اب اخبار کا چھٹنا فطری بات تھی۔گورا چٹا اونچا لمبااحسن کلیم جو پاکستانی نژاد ضرور تھا پر جرمن شہری تھا۔بزنس مین تھا۔پاکستان کیلئے اس کے پاس دُکھ اور غُصے بھرے جذبات تھے۔
’’سیاستدانوں کے پاس وژن نہیں۔جرنیلوں نے ملک کے مشرقی ہمسائے کو دشمن اور مغربی کوسٹریٹیجک نگاہ سے اپنا حلیف بنا کر رکھنے پر زور دیا۔ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیسری دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ملکوں کی قطار میں سب سے آگے تھا ۔ یہی چیز اس کے بدخواہوں اور دشمنوں کی آنکھوں میں کٹکھتی تھی۔ کولڈ وار میں گھسیٹ کر ایسا الجھایا کہ پرائی جنگ کو اپنے گھر میں ڈال بیٹھا۔
میں اُس وقت سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں جس نے مذہبی جنونیت،گروہی اور لسانی تعصبات ،معاشرے میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور تشّددکو جنم دے کر پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں بدنام کردیا پر کچھ سُننے کی خواہشمند نہیں تھی کہ یہ جی کو نہیں خون کو جلانے والی باتیں تھیں اور ہم وطن میں یہی کام کرتے تھے۔
اُس کی اگلی بات اور بھی ڈرامائی انداز کی تھی۔
یہ ترکی جسے پاکستان اپنا رول ماڈل سمجھتا ہے اسے بھی بڑی طاقتیں اب اسی ڈگر پر چلانے کا پروگرام رکھتی ہیں۔اسے بھی انہی اندھیروں میں دھکیلنے کیلئے کام ہورہا ہے جو پاکستان کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ طیب اردوآن نے نورسی تحریک یا فتح اللہ گولین سے وابستگی کے باوجود ابھی تک اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے اور ملک کو معاشرتی اور اصلاحی حوالوں سے مظبوط کرنے کے پروگرام پر سرگرمی سے عمل پیرا ہے۔مگر کہیں اُس کے اندر عالم اسلام کا لیڈر بننے کا ارمان ضرور ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک شام کے بہت سے معاملات میں مداخلت کرنے،مشرق وسطیٰ میں اٹھی عرب بہار کی فضا میں اُسکا بشارالاسد سے اقتدار میں عوام کی شرکت کیلئے اصرار اور بشار کے مخالفین کی درپردہ حمایت یہ سب خوش آئند نہیں ہیں۔
لمبی چوڑی بحث مباحثے میں پڑنے کی بجائے میں نے مختصراً اتنا ضرور کہا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ایسا سب ہونا شاید اس کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔روس افغانستان میں آکر بیٹھ جاتاتو دفاعی نظر سے یہ بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا۔تاریخ گواہ ہے برّصغیر کو جتنی بار روندا گیا وہ سب افغانستان کے راستے سے ہوا۔پاکستانیوں کو ابھی ایک قوم بننے کیلئے مدّت اور لیڈر درکار ہیں۔
ترک تو ایک سکہ بند قوم ہے جو بڑے بڑے بحرانوں سے سرخرو ہوکر نکلی ہے۔
رہا ترکی تو یہ بھی تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں ایک وقت کے بعد اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹتی ہیں۔روس کو دیکھ لےئجیے۔چین کی واپسی بھی بہت آہستہ آہستہ شروع ہوگئی ہے اور ترکی بھی اگر اپنے مرکز کی طرف مراجعت کرے گا تو کیا نئی بات ہوگی؟
ویسے تو یہ وقت عالم اسلام پر زوال کا ہے۔ مدت کتنی ہے؟اس کا انحصار اوپر والے کی مرضی پر ہے۔
اٹھنے میں عافیت سمجھی۔کمرے میں آئی تو سیما اب باقاعدہ خراٹے لے رہی تھی۔اُسے بے آرام کرنے کی بجائے میں خود بھی بستر پر لیٹ گئی۔اور پھر ہوا یہ کہ آنکھیں جو بند ہوئیں وہ اُس وقت کھلیں جب دس بج رہے تھے۔
سیما بھی جاگ چکی تھی۔تھوڑی دیر اِس بحث مباحثے میں گزاری کہ استنبول کی راتیں جوان ہیں۔یہاں کوئی ڈر ڈکر نہیں ۔چلتے ہیں ٹرام میں بیٹھ کر ایک لمبے روٹ پر اور اُترتے ہیں’’ یدی کولے‘‘ جس کے بارے ریسپشن والے لڑکے نے بتایا تھا کہ وہاں کی زیادہ آبادی آرمینیائی ہے۔اس کے ہوٹلوں میں ایسی خوبصورت موسیقی سُننے کو ملتی ہے کہ بند ے کا جی اسی میں غرق ہوجانے کو چاہتا ہے۔مچھلی کھائیے ۔ایک خوبصورت رات سے بھرپور انداز میں ملئیے۔
جتنے حربے استعمال کرسکتی تھی سب کیے۔حُسن و خوبصورتی کے جتنے باغ دکھا سکتی تھی دکھائے مگر وہاں انکار تھا۔ایک پکا انکار۔ پرائے دیس میں بھول جانے کا ،کِسی انہونی کے ہوجانے کا،ایک لمبی قطار خدشات کی۔میں نے لعنت بھیجتے ہوئے منہ پر چادر ڈال دی۔
♦
One Comment