مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی کو ايک مقامی عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد بھارت کے شہر ہریانہ میں جاری احتجاجی مظاہروں میں اب تک چودہ افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق شمالی بھارت کے علاقے پنچکولا کی ایک عدالت کی جانب سے سکھ مذہب کے ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے مشہور مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی کو مجرم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد ریاست پنجاب اور ہریانہ میں سکیورٹی فورسز اور ڈیرہ سچا سودا کے حامیوں کے درمیان ہو نے والے پر تشدد واقعات میں اب تک کم سے کم 29 افراد ہلاک اور قریب اسّی زخمی ہو گئے ہیں۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے کئی گاڑیوں اور ٹرين کی دو خالی بوگیوں کو نذرِ آتش بھی کر ديا گیا۔
مذہبی پیشوا ڈاکٹر گرمیت رام رحیم سنگھ جی پر الزام تھا کے انہوں نے سن 2002 میں اپنے ڈیرے پر دو خاتون پیروکاروں سے جنسی زیادتی کی تھی۔ جنسی زیادتی کے مقدمے میں مجرم قرار دیے جانے کے بعد ہی آج ہریانہ میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے۔ پنچکولہ کی مرکزی تفتیشی عدالت کے جج اس مقدمے میں حتمی سزا کا اعلان پیر28 اگست کو کریں گے۔
گرمیت رام رحیم انڈیا کے ایک خود ساختہ روحانی پیشوا ہیں جو ریاست ہریانہ میں ڈیرہ سچا سورا نامی فرقے کے سربراہ بھی ہیں۔اپنے شوخ انداز کی وجہ سے وہ ’راک سٹار گرو‘ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ان کے نہ صرف ہزاروں پیروکار بنے بلکہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی قائم ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ تنازعات سے بھی الگ نہیں رہے۔
سنہ 2002 میں انڈیا کی وفاقی پولیس نے خلاف قتل اور ریپ کے مقدمات کی تحقیقات شروع کیں جن سے وہ انکار کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انھوں نے اپنے 400 پیروکاروں کو مجبور کیا وہ اپنی مردانہ صلاحیت سے محروم ہو جائیں تاکہ وہ خدا کے قریب ہو سکیں۔
رام رحیم گرو 15 اگست 1967 میں مودیا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے جو ریاست راجستان میں واقع ہے۔ ان کا کوئی بہن بھائی نہیں۔23 ستمبر 1990 میں وہ ڈیرہ سچا سودا کے ہریانہ میں واقع صدر دفتر کے سربراہ بن گئے۔سرسا میں اس تنظیم کا ایک وسیع و عریض ہیڈ کوراٹر ہے جبکہ پورے ملک میں متعدد آشرم ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں سے رام رحیم نے خود کو ایک سماجی اصلاح کار کے طور پر پیش کیا جس کے دوران انھوں نے صفائی اور خون عطیہ کرنے کے لیے مہمات چلائیں۔
سنہ 2010 میں ایک اجتماعی شادی کی تقریب میں ان کے 1000 پیروکاروں نے جسم فروش عورتوں سے شادی کی۔
ان کی ذاتی ویب سائٹ پر ان سے متعلق کافی بڑے بڑے دعو ے کیے گئے ہیں۔ اس سائٹ کے مطابق وہ ’روحانی پیشوا، انسان دوست، ورسٹائل گلوکار اور آل راؤنڈر کھلاڑی‘ ہیں۔ وہ متعدد میوزک ویڈیوز میں بھی دکھائی دیے۔گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے پردۂ سیمیں پر بھی اپنے جلوے دکھا کر اپنی ہر فن مولا شخصیت کا سکّہ منوانا چاہا۔
سنہ 2015 میں انھوں نے فلم بنائی جس کا نام ’ایم ایس جی: میسنجر آف گاڈ‘ تھا۔ وہ اس فلم کے مصنف، شریک ہدایتکار، موسیقار اور گلوکار تھے۔ اگلے ہی برس انھوں نے اس فلم کا ’ایم ایس جی 2: میسنجر آف گاڈ‘ سیکوئل بھی بنایا۔اس فلم نے بڑے پیمانے پر شائقین کو متاثر کیا جس میں انھوں نے خود کو خلائی مخلوقات، بھوتوں اور ہاتھیوں سے تنہا لڑتے ہوئے اور معاشرے کے مسائل کو اکیلے ہی حل کرتے ہوئے دکھایا۔
اپنی شبیہہ بنانے کی انہی کوششوں کی وجہ سے انہیں ’راک سٹار بابا‘ کہا جاتا تھا۔ انہیں زیور سے مزین رہنے کی وجہ سے ’چمکیلے زیور والا گرو‘ بھی کہا جاتا تھا۔
ان کی کوششوں کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں پیروکار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈیرہ سچا سودا کے مطابق دنیا بھر میں ان کے چار کروڑ سے زائد پیروکار ہیں۔ تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ان کے زیادہ تر پیروکار پنجاب اور ہریانہ میں ہیں۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ان کے بیٹے کی شادی سیاسی جماعت کانگرس کے رکن ہرمندر سنگھ جسّی کی بیٹی سے ہوئی۔
سنہ 2007 میں وہ ایک اشتہار میں سکّھوں کے پیشوا گرو گوبند سنگھ کی طرح ملبوس ہوئے جس پر سکھ برادری ناراض ہوئی۔ اس کے بعد سنہ 2015 میں ایک ہندو تنظیم نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی جس کے تحت ایک ویڈیو میں رام رحیم نے ہندو بھگوان وشنو کا روپ دھار رکھا تھا۔ ناقدین کے مطابق انھوں نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح کیے ہیں۔
ان تمام تنازعات کے باوجود ان کے پیروکاروں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں سیاستدان بھی شامل ہیں۔ ان کے گروہ کو حکمراں بھارتیا جنتا پارٹی اور کانگرس دونوں کی ہی حمایت حاصل رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ گرو سے زیادہ نچلی دلتوں کی سکھوں کی اپنے حقوق کے لئے لڑائی ہے۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں دلت جنھوں نے سکھ مذہب قبول کیا ہے انھیں مذہبی سکھ کہا جاتا ہےجیسے ہمارے ہاں دین دار کہا جاتا ہے۔یہ مذہبی سکھ گورودواروں کی بجائے ڈیروں میں منظم ہورہے ہیں کیونکہ اوپری ذات کے سکھ انھیں گورودواروں اور دیگر مذہبی مقامات داخلے پر پابندی لگاتے ہیں۔ گرومیت کا ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ گرومیت گروشپ کی اختتام کو نہیں مانتا۔ اس لئے اس پر توہین مذہب کے بھی کئی مقدمات ہیں۔
DW/BBC/News Desk
3 Comments