ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
عمران خان کے متنازعہ ٹیکسٹ میسجز نےملکی سیاست میں جو ارتعاش پیدا کیا ہے، اس سے بڑھ کر اس معاملے نے ایک سماجی ہیجان کو جنم دیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل جو پہلے سے اس طرح کے متنازعہ مواد کے تاک میں بیٹھے رہتے ہیں،نے اس امر کو خوب اچھالا، نتیجے کے طور پر یہاں بھی عمران خان کو کلین چیٹ ملی، اور الٹا معاملہ عائشہ گلالئ، اسکی بہن ماریہ تورپیکئ اور والد صاحب کی کردار کشی کی طرف موڑ دیا گیا۔
جب میں عائشہ گلالئ کے متنازعہ بیان کے بارے میں نجی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو کو دیکھتا ہوں اور ان کی جانب مختلف تیرکشوں سے نکلنے والے زہر آلود تیروں کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے ایک لمحے کیلئے عائشہ گلالئ ایک عام سی لڑکی دکھتی ہے، جو ایک گاؤں کے ایک معمولی کسان کی بیٹی ہے اور جس کے کردار کو ایک وڈیرے نے للکارا ہے ۔
گاؤں میں ظاہر ہے وڈیرے کی بات چلتی ہے، ہر ہنرمند کے منہ میں وڈیرے کی زبان ہوتی ہے، کسان، کمین، جت ،جولا اور میراثیوں کی ایک فوج ہمہ تن وڈیرے کی خدمت مین کھڑی رہتی ہے۔خصوصاً میراثیوں کو اسی ڈیوٹی پر تفویض کیا جاتا ہے کہ وہ وڈیرے کی حق میں ڈھنڈورا پیٹے پھرے، الزام لگانے والی خاتون اور اسکی خاندان کو سماجی سطح پر اتنا بدنام کریں کہ وہ اپنی بات سے پھیر جائے، بدک جائیں، گاؤں چھوڑدے یا الٹا آکر وڈیرے کے پاؤں میں ڈھیر ہوں، گڑ گڑا کر اپنی لڑکی کی طرف سے معافی مانگ لیں۔ محکومی اور غلامی کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ یہ اپنے ہی طبقے کے لوگوں کے سامنے آنے پر چڑھ جاتا ہے، اسی لئے محکومی اور تابعداری کی نفسیات کے حامل نوکر وڈیرے کے معاف کئے دینے کا باوجود بھی معاف نہیں کرتے، یہ لوگ خان کا نوکر ڈیڑھ خان کے زمرے میں آتے ہیں۔
اسی صورتحال کو اگر ہم عائشہ گلالئ کے کیس میں دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ گاؤں نمایہ پورا ملک ایک قبائلی سماج کے روپ میں ڈھل گیا ہے۔ قبائلیت میں یہی تو ہوتا ہے کہ دادا کے کرتوت کا طعنہ نواسے کو ملتا ہے، اب اس نکتے کی وضاحت کون کرے کہ غیرت، حیا، پاکستانیت، مشرقیت، دیانت، عصمت اور عفت کی تعریف کیا ہے۔ اس کی تعریف کون اور کن حالات میں کرتا ہے ، اس کا اطلاق کہاں اور کن پر ہوتا ہے اور اس سے جڑاہوا مخصوص سیاسی اور معاشی فائدہ کس کو ملتا ہے۔
عائشہ گلالئ نے اگر چار سال تک چپ سادھ لی ہے اور اب جاکر اس کا اظہار کیا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے۔ یہ امر مرد اور خواتین کیلئے یکساں طور پر قابل غور ہے کہ جنسی یا جسمانی طور پر ہراساں کئے جانے کا احساس اتنی شدت سے کردار میں سرائیت کرتا ہے جس کو کاندھے اُچکا کر پرے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ پاکستان اور دیگر روایتی معاشروں میں جہاں بچپن میں بچے زیادہ تر خاندان کے اندر ہی ہراساں ہوتے رہتے ہیں بمشکل اپنے ساتھ ہونے والے اس ناانصافی کا ذکر کر پاتے ہیں۔
صنفی اور جنسی تشدد پر کیے جانے والے تحقیقی مطالعے یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں خصوصاً دیہی علاقوں میں ہراساں کئے جانے والے افراد(لڑکا ، یا لڑکی) جب اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا اظہار کرتے ہیں تو وہ اس وقت اپنے ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسا زیادہ تر تب ہوتا ہے جب مقابل تگڑا ہو اور اس سے اس ناانصافی کی وجوہ نہیں پوچھی جاسکتی ہو۔اس صورت حال میں ہراساں کئے جانے کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور نتیجے کے طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔
عائشہ گلالئ نے اگرچہ انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو ذاتی ہتک اور عزت نفس پر حملے کے طور پر اُٹھایا ہے لیکن جب وہ اس معاملے میں خاندانی وقار، روایات، اقدار، وغیرہ کو گھسیٹ کر لاتی ہیں تو یہیں سے ان مشکلات کاآغاز ہوتا ہے۔ کیا اگر عائشہ گلالئ یا اسکی بہن ماریہ تورپیکئ روایت کا دامن پکڑتے تو کیا انہیں وہ تمام تر مواقع اور گنجائشیں مل جاتیں جو ان کو ملی ہیں؟۔
قابل غور امر یہ ہے کہ ان پر ہونے والے ذاتی حملے بھی دراصل اسی ذہنیت کے افراد کی جانب سے ہورہے ہیں جو ابھی تک عورت کو مرد کی کلی ملکیت سمجھتے ہیں اور پھر قبائلی لڑکی یا اک قبائلی خاندان کو تو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہاں کی لڑکیاں ان روایتی دائروں سے نکل آسکیں جہاں انکو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا آسان ہو۔جن لوگوں نے یہ صورتحال تھونپی ہے ان کا یہ خوف جائز ہے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ ماہ ماکل نہ بن جائے۔
اگر عائشہ قبائلی فریم ورک میں سوچتی بھی ہیں تو اس پر شرمسار ہونے کی ضرورت ہی نہیں کہ انہوں نے اس راز کو افشاں کرنے میں دیر کیوں کی۔ انہوں ایک ایسے وقت میں اس راز کو افشاں کیا ہے جب خان صاحب کی دستار کا شملہ دس گز اونچا ہوا چارہا تھا ، وہ درباریوں کی تعریف کی حدت سے اپنی بتدریج موٹی ہوتی ہوئی انا کو سیکھ رہے تھے، اپنے واحد حلیف کو پویلین کا رستہ دکھا چکے تھے ۔ روایتی انتقام ہوتا ہی ایسا ہے حریف کو پریشان ہونے کا ساتھ ساتھ حیران بھی کرسکے۔ اگر نجی ٹی وی چینلوں کے وتیرے کا مشاہدہ کیا جائے تو تقریبا سب نے اپنے قبائلی طرز کے زائچے استعمال کرتے ہوئے عائشہ کو غلط بیانی کرنے کا مرتکب قرار دیا ہے۔
ایک اینکر پرسن جو کہ زمان و مکان کے ساتھ گرگٹ بنتا ہے، کبھی عالم آن لائن، تو کبھی عطائی ڈاکٹر، کبھی کرتہ فروش تو کبھی عطر اور افطار فروش، ان کی جانب سے اس معاملے کو ایک دفعہ پھر ایک لسانی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔مجھے انکی پریشانی کا ادراک ہے، وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک طرح سے کر رہے ہیں ۔ کیوں اگر ایسا ہو کہ پشتون علاقوں سے نکلنے والی لڑکیاں سیاست میں بھی ثابت قدم ہوں، بہادری سے اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی پر بھی بات کرسکتی ہوں، کم عمر نوبل لاریٹ اور اقوام متحدہ میں کم عمر ترین مندوب کے طور پر بھی جاسکتے ہوں، سکواش کھیلنے اور سائنس کے میدان میں نام پیدا کرسکتے ہوں تو پھر ساٹھ ستر سال میں درسی کتب، پاکستانی ڈراموں، کمرشلز اور فلموں میں تراش شدہ پٹھان کے کردار تو باطل ثابت ہوجائیں گے۔
اگر تحریک انصاف سے مراد صرف عمران خان نہ ہو، بلکہ اس میں داخلی طور پر جمہوری روایات کی پاسداری ہو رہی ہو تو اس واقعے کو ایک بنیادی سنگ میل کے طور پر لینا چاہئے ۔لگائے جانے والے الزامات کی صحت ، زمان و مکان پر بات ہو۔ اگرچہ (دلچسپ امر یہ ہے کہ) کراچی ، اسلام آباد اور لاہور کے بڑے بڑے شہروں میں پلنے اور بڑھنے والے تعلیم یافتہ سیاست مدار اور صحافی اس معاملے میں فاٹا اور وزیرستان کے لوگوں سے زیادہ قبائلیت دکھا رہے ہیں، لیکن پھر بھی یہ امر سمجھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ہر گز قبائلی ذہنیت سے حل ہو نے والا نہیں ، کیونکہ اس مسئلے نے ایک قبائلی طرز فکر سے جنم لیا ہے۔
♦
2 Comments