ہمارے ماموں حج سے واپس آئے تو پورا گاؤں ان کے استقبال کے لیے امنڈ آیا ماموں پر ہر طرف سے پھولوں کی پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں۔ کچھ عقیدت مند ان کے گلے میں ایک ایک روپے کے نوٹوں کے ہار ڈال رہے تھے(یاد رہے کہ اس زمانے میں ایک روپے کی بڑی وقعت تھی ) ان کے استقبال کے لیے گھرکےباہردوتین آرایشی گیٹ بنایے گئے تھے جو گنبد خضراء کا منظر پیش کر رہے تھے۔
ہم نے کھینچ کھانچ کر دو تین ہار اپنے نیفے میں اڑس لئے تھے۔ ماموں نے ہماری یہ حرکت نوٹ کر لی تھی لیکن صرف دانت پیس کررہ گئے تھے۔ جب ان کو سجے سجائے کمرے میں دلہن کی طرح بٹھایا گیا تو ہر طرف سے “مرحبا “اور “جزاک اللہ” کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔
ہرایک ان کو چھونے کے لیے ماموں کے نزدیک ہونے کی کوشش کر رہا تھا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے حاجی بن کر ہمارے ماموں سنگ پارس بن گئے تھے ۔ عقیدتوں کی بارش کچھ تھمی تو لوگوں نے سوال جواب پوچھنے شروع کر دیئے ۔ پیش امام صاحب کو تو ویسے ہی ہمارے ماموں کا حاجی بننا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔
پوچھا ، ”ہاں تو وہاں کی سب سے اچھی بات کیا لگی آپ کو“؟
ماموں برا سا منہ بنا کر بولے، ”باقی تو سب ٹھیک تھا لیکں دھکے بہت کھانے پڑتے ہیں“۔
مولانا کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی۔ تھوڑا سا ان کے قریب سرک کرپوچھا
“دھکے کیسے”؟۔
اتنا کہہ کر انہوں نے حاظرین پرایک فاتحانہ نظرڈالی۔ ان کو گویا یقیں ہو گیا تھا کہ ماموں کو بھرے مجمع میں ایکسپوز کرنے کی ان کی کوشش رنگ لانے لگی تھی۔
ماموں نے کہا۔ ” یاروہ جوکالی عمارت ہےنا ، اس کے ارد گرد چکر لگانے کے لئے چلنے کی توضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ پیچھے سے اتنے دھکے پڑتے ہیں کہ بندہ خود بخود چلتا ہی رہتا ہے ۔
مولوی ۔۔۔۔ “۔
جزاک اللہ یعنی اللہ میاں اپنے نیک بندوں کو طواف میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے اپنی سمئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کرکہا، ” لیکن یار وہ کالی عمارت کا کیا ذکر کیا آپ نے؟” ۔
مولانا گھیر گار کر ان سے کوئی احمقانہ بات اگلوانے کے چکر میں تھے ۔
ماموں “مولانا آپ کے دماغ میں کیا بھس بھرا ہوا ہے کہ اتنی سادہ سی بات بھی آپ کے موٹے دماغ میں نہیں آ رہی کہ وہی کال عمارت ہی تو ہے جس کے آگے پیچھے گھومنے کے لیے ساری دنیا پاگل ہے۔
ویسے اس کا دیدار ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ گدھوں کی پیشانی پر محراب کے نشان نہیں ہوتے ۔۔ اورآپ کی طرح اگر گدھوں پر ایک من کتابیں بھی لاد دی جائیں تو گدھا تو پھر بھی آپ کی طرح گدھا ہی رہے گانا۔ ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا ۔۔۔ آپ یہاں ان جاہلوں کو بے وقوف بناتے رہیں ” ۔۔۔
مجمع میں سے “مرحبا مرحبا” اور “جزاک اللہ” کی آوازیں بلند ہوئیں اور مولوی صاحب بغلیں بجانے لگے۔۔۔۔ ہمارے ماموں کی پیری مریدی کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا اور دن دو گنی رات چو گنی ترقی کرتےہوئے اندروں سندھ کے دور درازتک کےعلاقوں تک پھیل گیا۔ مسلمان تو مسلمان دھابیجی کے ملباری ہندو بھی ان کے حلقہء ارادت میں شامل ہو گئے تھے ۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مولوی صاحب کو انہوں نے چند ہی دنوں میں وہاں سے بھگا کر مسجد کا چارج خود سنبھال لیا تھا ۔ بعد میں جب کاروبار میں ترقی ہوئی تو وہی مسجد انہوں نے اپنے ایک بالکے کو معقول رقم کے عوض فروخت کر دی ۔۔ دو سال پہلے دیر میں 103 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
♦
2 Comments