آصف جاوید
دسمبر 1945 میں مرکزی مجلس قانون ساز اور کونسل آف اسٹیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی تمام 30 نشتوں پر کامیابی حاصل کرلی تھی۔ جنوری 1946 کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ نے 425 نشستوں پر جیت کر ایک تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ اس طرح مسلم لیگ نے ہندوستان کی سیاست میں کانگریس کے مقابلے میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔
مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی خواہشمند تھی، مگر کانگریس ہندوستان کی تقسیم کے یکسر مخالف تھی، جس کی وجہ سے انتقالِ اقتدار میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا تھا۔ سنہ 1946 ء کے انتخابات کے فوراً بعد حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ڈیڈلاک کو ختم کرنے ، انتقال اقتدار اور عبوری آئین بنانے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے برطانوی کیبنٹ کے تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا ۔ یہ مشن کیبنٹ مشن کے نام جانا جاتا ہے۔ یہ مشن 24 مارچ سنہ 1946 ء کو دہلی پہنچا۔ اس مشن میں مندرجہ ذیل تین وزرا شامل تھے۔
سر پیتھک لارنس۔ سیکریٹری اسٹیٹ آف انڈیا
سر سٹیفورڈ کرپس۔ صدر بورڈ آف ٹریڈ
اے وی الیگزینڈر۔ فرسٹ لارڈ آف ایڈمرلٹی
کیبنٹ مشن کے چوتھے ممبر لارڈ ویول ، وائسرائے آف انڈیا بھی تھے، مگر انہوں نے مذاکرات میں کبھی بھی حصّہ نہیں لیا تھا۔
مشن کا اصل مقصد متّحدہ ہندوستان میں انتقال اقتدار، عارضی حکومت کا قیام اورکانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کراکے معاملات کو ہموار کرنا تھا۔
مشن نے 24 مارچ سنہ 1946 ء کوہندوستان پہنچتے ہی وائسرائے ہند، صوبائی گورنروں ، ایگزیکٹیو کونسل کے اراکین اور کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس لیے مشن نے شملہ کے مقام پر اہم سیاسی راہنماؤں کی ایک مشترکہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس 5 مئی 1946ء سے 12 مئی 1946ء تک شملہ میں منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان ، نواب محمد اسماعیل خان اور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی جبکہ کانگریس کی نمائندگی مولاناابوالکلام آزاد ، پنڈت جواہر لال نہرو ، ولبھ بھائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان نے کی۔
دونوں سیاسی پارٹیوں کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم چاہتی تھی جبکہ کانگریس کسی بھی قیمت پر ہندوستان کی تقسیم پر تیّار نہ تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر کیبنٹ مشن گوں مگوں کیفیت سے دوچار تھا ، وہ نہ تو مسلم لیگ کے مطالبے کو جائز قرار دے سکتا تھا اور نہ ہی کانگرس کی خواہش کو جائز کہہ سکتا تھا۔ مگر مشن نے صاف الفاظ میں مسلم لیگ کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے مطالبے کو یکسر رد کردیا تھا۔
ڈیڈ لاک ختم کرنے لئے مشن نے ایک درمیانی راستہ نکالااور 16 مئی 1946ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا ، اس منصوبے کو ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کہتے ہیں۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا ، دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے ہندوستان کو تقسیم ہونے سے روکنا تھا۔
کیبنٹ مشن پلان کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
۔1۔کیبنٹ مشن پلان کے تحت برطانوی ہند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ گروپ اےمیں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ ، بہار ، بمبئی ، سی پی ، مدراس اور یو پی اور گروپ بی میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب ، صوبہ سرحد، اورسندھ جبکہ گروپ سی میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ بلوچستان اور کشمیر آزاد ریاستیں ہونے کی وجہ سے کیبنٹ مشن پلان کی گروپ بندی میں شامل نہ تھے۔ مگر انہیں صوابدیدی حقوق حاصل تھے۔
۔2۔ کیبنٹ مشن پلان کے تحت برطانوی ہند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ہند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں لا نے کی تجویز پیش کی گئی۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ، دفاع اور مواصلات کے شعبے تجویز کئے گئے۔ خارجہ امور ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔
۔3۔ کیبنٹ مشن پلان کے تحت برطانوی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ہر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ہونے کا امکان ہو، کو فیصلہ کرنے کے لیے ہر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔
۔4۔ کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک لازمی شق تجویز کی گئی ، جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں ، توکل ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔
۔5۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ہند کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانوے 93 نشستیں دی گئیں۔
منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے کیبنٹ مشن نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔
قائدِ اعظم اور مسلم لیگ کے نزدیک، غیر منقسم ہندوستان میں ہندوؤں کی عددی اکثریت مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج تھی۔ مسلمان ، ہندوؤں کے مقابلے میں کمتر ، پسماندہ، جاہل، غریب اور عددی اقلیّت کا شکار تھے۔ مسلمانوں کی فلاح ایک آزاد وطن میں ہی ممکن تھی۔ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ، قائدِ اعظم کا مطمحِ خاص تھا۔
اگلے مضمون میں ہم کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز پر مسلم لیگ اور کانگریس کے ردِّ عمل اور کانگریس کی ہٹ دھرمی، قائدِ اعظم کی بصیرت اور تشکیل پاکستان کے حالات پر گفتگو کریں گے، ہمارے ساتھ رہئے گا ۔
نوٹ:مضمون کی تیّاری میں قیام ِ پاکستان کی جدوجہد سے متعلّق متعدّد کتابوں کے حوالوں سے مدد لی گئی ہے۔ کسی ایک کتاب یا حوالے کا نام دینا مشکل ہے۔ اس کے مندرجات ، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور تاریخی کتابوں میں پہلے سے درج ہیں۔ اعتراض کنندہ حضرات سے گذارش ہے کہ وہ نفسِ مضمون کی صحت کو چیلنج کرنے کے لئے اپنی ذاتی تحقیق سے کام لیں۔ اگر کوئی تاریخی حقائق کو چیلنج کرسکے تو مصنّف کو خوشی ہوگی ۔