آصف جاوید
ابتداء میں کیبنٹ مشن پلان پر کانگریس اور مسلم لیگ کا ردعمل گو مگوں رہا۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے ملے جلے ردِّ عمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ مگر 6 جون 1946ء کو مسلم لیگ نے حیرت انگیز طور پر کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا ، کیونکہ اس میں ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے تمام ترآثار موجود تھے۔ دوسری طرف کانگریس نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے بالآخر 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا اور دوسرے کو نامنظور کرلیا۔ جو طویل المعیاد منصوبہ تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں لانا تھا ،اُس کو قبول کر لیا گیا۔ جو قلیل المعیاد منصوبہ تھا۔ جس کے تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا، اُس کو مسترد کر دیا گیا۔
اس صورت حال میں کیبنٹ مشن اور وائسرائے کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کرتے ، کیونکہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا ، لیکن افسوس کہ کیبنٹ مشن اور وائسرائے ایسا نہ کر سکے ، انگریز کی اس بدعہدی اور کانگریس کے بد ارادوں کے نتیجے میں مسلم لیگ نے احتجاجاً 29 جولائی 1946ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پلان کی قبولیت) واپس لے لی بلکہ براہِ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا اور پورے ہندوستان کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔
اس موقع پر کانگریس کے لیڈروں نے ایک نیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے 10 اگست 1946ء کو کابینہ مشن پلان کے دونوں حصوں کو منظور کر لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 اگست 1946ء کو کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تجاویز طلب کرلیں۔ اور مسلم لیگ کو سنگل آؤٹ کردیا گیا۔ لندن سے منظوری حاصل کرنے کے بعد وائسرائے نے 24 اگست کو پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے ساتھیوں کی عبوری حکومت میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
اس اعلان کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، جو شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ ، بمبئی ،آگرہ ،احمد آباد، نواں کلی ، بہار اور دہلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حالات و واقعات میں کانگریسی لیڈروں نے انگریزوں کے ساتھ اپنی دوستی اور وفا کا بھرم رکھتے ہوئے 2 ستمبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا حلف اٹھایا۔ مسلم لیگ سنگل آؤٹ ہوچکی تھی، جس کا مسلم زعماء کو بہت ہی افسوس تھا، اس موقعہ پر نواب صاحب آف بھوپال نے بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے ، اہم کردار ادا کیا۔
نواب صاحب کی کوششوں سے وائسرائے ہند لارڈ ویول ، قائداعظم اورپنڈت نہرو کے درمیان بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نواب صاحب آف بھوپال نے کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان مستقل بنیادوں پر مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ مگر ان کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ مگر بات چیت کے اس دور کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے 16 اکتوبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ جو مسلمانوں کی ایک بڑی پیش رفت تھی۔ لیکن عبوری حکومت میں شمولیت سے ہندو مسلم تنازعے کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں آیاتھا،کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح نے مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو کابینہ کو مشن کے بعض نکات جو طویل المعیاد منصوبے سے متعلق تھے کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔ اور مجوزہ قانون ساز اسمبلی کی تعریف و توضیح اور دائرہ کار کے اختیارات سے متعلق وضاحتیں اور تشریحات اپنے مفاد اور اپنی خواہشات کے مطابق کر رہے تھے۔
نہرو کا استدلال یہ تھا کہ مجوزہ قانون ساز اسمبلی مکمل طور پر ایک خودمختار ادارہ ہوگا اور یہ ادارہ جو چاہے کر سکے گا۔ بقول خان لیاقت علی خان ،مسلم لیگ کے لیے ایسے ادارے میں شرکت اپنے مطالبے (مطالبہ پاکستان) سے خود بخود دستبردار ہونے کے مترادف تھا۔ اگر مجوزہ قانون ساز اسمبلی کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ مان بھی لیا جائے تو اس میں مسلم لیگ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی ، کیونکہ اس اسمبلی میں ایک مسلم ممبر کا مقابلہ دیگر چار اراکین سے ہوگا۔
اگر قائداعظم مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان نہیں کرتے تو کانگریس اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپنی ہی خواہشات کے مطابق ہندوستان کے لیے آئین تیارکرتی ۔ لیکن مسلم لیگ کسی بھی قیمت پر کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی اور یوں اتنی سیاسی پیش رفت کے باوجود ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود آئینی بحران اور سیاسی اختلاف بدستور قائم رہا۔
کیبنٹ مشن پلان اور اس پرمسلم لیگ اورکانگرس کے ردعمل کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا نہایت ہی آسان ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹش ایمپائر ہندوستان کو آزادی دینے کے لیے راضی تھا، لیکن وہ ہندوستان کا مسئلہ ہندوستانیوں ہی ذریعے حل کروانا چاہتا تھا۔ دوسری طرف کانگریس اور لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس ہندوستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آنے کے لیے تیار نہیں تھی، جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے ہندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول نہیں ہے۔ اس موقع پر کانگریسی پنڈتوں کی سیاسی چالوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ مسلم لیگی زعماء کے ساتھ ایک انوکھا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے مسلم لیگ کو عبوری حکومت سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں قائد اعظم کی شخصیت ایک ایسی ناقابل تسخیر چٹان کی مانند تھی، جس کو توڑنا یا مسخر کرنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔
قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیاتها، اور وہ عبوری حکومت میں بھی شامل ہوگئے تھے۔ قائداعظم کی دور رس نگاہوں اور بصیرت نے محسوس کرلیا تھا کہ اگرہم نے اس وقت اس کیبنٹ مشن پلان کونہ مانا تو عین ممکن ہے کہ وائسرائے اور مشن دونوں مل کر کانگریس کو یکطرفہ طور پر اقتدار منتقل کر کے ہندوستان سے رخصت ہو جا ئیں۔
ایک مرحلے پر کانگریس کے صدر پنڈت جواہرلال نہرو کے منہ سے سچی بات نکل گئی تھی کہ صرف ایک دفعہ یونائیٹڈ انڈیا ایک وحدت کی شکل میں آزاد ہوجائے اور مرکزی حکومت قائم ہو جائے، تو پھر ہندو اکثریت سارے فیصلے الٹے کردے گی، پهرکون کسی کو علیحده ہونے دیتا ہے۔ قائدِ اعظم نے یہی بات پکڑ لی تھی اور فورا ” کیبنٹ مشن پلان کو مسترد کردیا تھا۔
یہ بات واضح رہے کہ قائدِ اعظم اور مسلم لیگ کے نزدیک ،ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج تھی۔ مسلمان تعداد میں کم اور پسماندہ تھے، یونائیٹڈ انڈیا میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کی اکثریت، طاقت اور معیشت کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ قائدِ اعظم کے نزدیک مذہب اسلام نہیں، بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل اہم تھا۔ قائدِ اعظم کی ترجیح اسلامی شرعی ریاست نہیں تھی، بلکہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت تھی۔ یہ بات بھی واضح رہنا چاہئے کہ قرارداد لاہور میں اسلام یا آزادی کے بعد پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔
ہماری نوجوان نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ملک کو بنائے جانے کے اصل محرکات اور وجوہات کیا تھیں؟۔ مجھے امید ہے کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد ہمارے قارئین پر یہ واضح ہو جائیگا کہ پاکستان بناتے ہوئے قائداعظم کا کا اصل مطمحِ نظر ہندوستان کے مسلمانوں کا سیاسی، سماجی اور معاشی مستقبل تھا۔ کوئی شرعی اسلامی ریاست نہیں تھا۔
آج بنیاد پرست مسلمان قائد کے وژن کو دھندلانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کو بنیاد پرست اسلامی شرعی ریاست بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کو 1400 سال پہلے پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔ آج پاکستان کو اس اصل راستے اور مقاصد سے بہت دور ہٹایا جا رہا ہے۔
عسکری اسٹیبلشمنٹ ، بنیاد پرست ملّا اور جاگیر دار اپنے گٹھ جوڑ سے پاکستانی عوام کا ہندوؤں سے بھی زیادہ استحصال کررہے ہیں۔ پاکستان عسکری ریاست اور اسلام کا قلعہ بننے کے لئے وجود میں نہیں آیا تھا۔ بلکہ برِّ صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک روشن خیال، سیکیولر ، لبرل اسٹیٹ بننے کے لئے وجود میں آیا تھا۔
نوٹ مضمون کی تیّاری میں قیام ِ پاکستان کی جدوجہد سے متعلّق متعدّد کتابوں کے حوالوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ کسی ایک کتاب یا حوالے کا نام دینا مشکل ہے۔ اعتراض کنندہ حضرات سے گذارش ہے کہ وہ نفسِ مضمون کی صحت کو چیلنج کرنے کے لئے اپنی ذاتی تحقیق سے کام لیں۔ اگر کوئی تاریخی حقائق کو چیلنج کرسکے تو مصنّف کو خوشی ہوگی ۔
♦