سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے۔تصویر میں لکڑی کا ایک بنچ ہے۔ اس بنچ پر دو آدمی اور دو عورتیں ہیں۔ یہ ایک عام سا بنچ ہے جو کنیڈا کے ہر پارک میں دکھائی دیتا ہے۔ پارکوں کے علاوہ فٹ پاتھوں کے کنارے، کھیل کے میدانوں کے کنارے یا فیکٹریوں ، سکولوں اور دفاتر کے لانز اور پچھواڑں میں یہ بنچ عام دکھائی دیتے ہیں۔ ان بنچوں پر عا م لوگ عام طور پر بیٹھ کر تھوڑی دیر کے لے سستا لیتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں یا پھر دھوپ سیکتے ہیں۔
اس تصویر میں جو چار لوگ بنچ پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ فرنچ فرائز اور پوٹین کھا رہے ہیں۔ یہ کنیڈا کا غالباً سب سے عام اور سستا ترین کھانا ہے۔ لیکن یہ چار لوگ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔ ان میں ایک کنیڈا کا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ ہیں۔ اور دوسرے بلجئیم کے وزیر اعظم اور ان کی بیگم ہیں۔ اس موقع پر کنیڈا کے وزیر اعظم نے بلجئیم کے وزیر اعظم کو لنچ پر مدعو کیا ہوا ہے۔
اس لنچ کے دوران یہ لوگ باہمی دلچسبی کے امور پر گفتگو کر رہے ہیں ، دھوپ سیک رہے ہیں اور کنیڈا کے موسم گرما سے پورا لطف اٹھا رہے ہیں۔ یوں ان دو امیر اور ترقی یافتہ ملکوں کے لیڈرز چند ڈالر کے لنچ پر اپنی ذاتی مہمان نوازی اور سرکاری ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہے ہیں۔
یہ تصویر اب تقریبا دو ماہ پرانی ہے مگر سوشل میڈیا پر اب بھی شےئر ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ تصویر سادگی، کفایت شعاری یا انکساری کے تصورات کو پھیلانے کے لیے شیئر کر رہے ہیں۔ وہ یہ تصویر سوشل میڈیا پر ہمارے حکمرانوں اور رہنماوں کے ساتھ شےئر کر رہے ہیں۔ ان کو امید ہے کہ یہ لوگ ایسی تصاویر سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی نیت اچھی ہے۔ ارادے نیک ہیں۔ مگر جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے وہ اس طرح کی تصاویر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی وہ اس طرح کی مثالوں سے مرعوب ہوتے ہیں۔
یہ تصویر ترقی یافتہ مغربی سماج میں موجود کئی اچھی اقدار میں سے ایک قدر کی ایک مثال ہے۔ ہمارے بیشتر سیاسی رہنماؤں اور بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمیں مغرب سے کچھ نہیں سیکھنا چاہیے۔ یہ لوگ اس سلسلے میں دو قسم کی آرائیں رکھتے ہیں۔ ا یک یہ کہ مغربی معاشرہ ایک شیطانی سماج ہے جس کی ہر چیز کو رد کیا جانا چاہیے۔ اور اگر مان لیا جائے کہ ان میں کوئی اچھی اخلاقی قدر ہے بھی تو یہ انہوں نے ہمارے ہی آبا و اجداد سے چرائی ہے۔ چنانچہ ہمیں مغرب سے کوئی چیز جاننے اور سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں مغرب کے بجائے مشرق سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ یا ان کی کسی اخلاقی قدر کو اپنانا چاہیے۔ ہمارے ان رہنماؤں اور دانشوروں کا مشرق کے بارے میں بھی خیال کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مشرق میں جاپان، چین اور ہندوستان بھی ہے۔ ظاہر ہے ہمارے یہ دانشور ان ملکوں کی تہذیب و تمدن، اخلاقیات اور رسم وراج سے بھی شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ بلکہ بعض سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار پر ان کا اتنا اختلاف ہے جتنا مغرب سے نہیں۔ چنانچہ ہم مغرب سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں نہ مشرق سے۔
لے دے کر ہمارے پاس عرب اور ترک ہی رہ جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ تھا۔ کئی اعلیٰ اور قابل تعریف اقدار تھیں۔ مگر اس سلسلے میں بھی انتخاب ہماری مرضی کا ہے۔ ان لوگوں سے بھی ہم نے صرف وہ چیزیں اپنائی جو ہمیں پسند ہیں۔ ان میں ایک مہمان کے سامنے وسیع و عریض دستر خوان بچھانا اور اس کو انواح و اقسام کے کھانوں کی نمائش سے متاثر کرنا ہے۔ اس عمل کوہم نے مہمان نوازی کا عظیم نام دیا ہوا ہے۔
ہم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم بہت بڑے مہمان نواز ہیں۔ اس مہمان نوازی کے اندر مگرہمارے ماضی کی چند بہت ہی تلخ حقیقتیں پوشیدہ ہیں۔ تاریخ میں دو قسم کے لوگ ہمیشہ موجود رہے۔ ایک کھاتے پیتے اور دوسرے بھوکے ننگے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ ہمارے ہاں بھی ہمیشہ موجود رہے۔
کھانے پینے والوں اور بھوکے ننگے لوگوں کی تقسیم ہماری نفسیات میں ہے۔ چنانچہ جب کبھی بھی ہمیں موقع ملتا ہے تو ہم مہمان نوازی کی آڑ میں وسیع دستر خوان بچھا کراور اس پر انواع و اقسام کے کھانے سجا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ہم بھوکے ننگے بھی رہے۔فاقہ کشی بھی کی۔ چنانچہ یہ صدیوں کی بھوک ہمارے ڈی این اے میں موجود ہے۔
اس بھوک کا اظہار ہم روزانہ کرتے ہیں۔ کھاتے پیتے لوگوں کی محفلوں میں بھی کھانے کے وقت ہمارے ڈی،این ،اے کی بھوک اپنی چمک دکھاتی ہے۔ ہم کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے پہلی اور آخری بار دیکھ رہے ہوں۔ پلیٹ اتنی بھرتے ہیں کہ اٹھا نہیں سکتے۔ یہ مناظر ہم اپنی علمی ادبی محفلوں سے لیکر شادی بیاہ کی تقریبات میں روزانہ دیکھتے ہیں۔
اس طرح کے ماحول میں ایسی تصاویر کو ضرور شےئر کرنا چاہیے جو سادگی اور قناعت کا پیغام دیتی ہوں۔ہو سکتا ہے کہ ایک دن ہم بھی اپنے دل سے نمود و نمائش اور ڈی این اے سے بھوک نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔
♥
One Comment