پاکستان: نوجوان مسیحی ’توہین مذہب‘ کے الزام میں گرفتار

پاکستانی حکام کے مطابق ’توہین مذہب‘ کے مبینہ ارتکاب کے جرم میں ایک مسیحی نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نوجوان پر مسلمانوں کی مقدس کتاب کے اوراق نذر آتش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اٹھارہ سالہ مسیحی نوجوان آصف مسیح کو وزیر آباد کے ایک گاؤں سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نوجوان کو ’رنگے ہاتھوں‘ گرفتار کیا گیا۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی پولیس کے ایک اہلکار اصغر علی نے بتایا، ’’بارہ اگست کی رات پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک مسیحی نوجوان ایک مزار کے باہر مبینہ طور پر قرآن کے اوراق جلا رہا ہے‘‘۔

س واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار پرویز اقبال نے اے ایف پی کو بتایا، ’’جب پولیس نے مشتبہ ملزم کو حراست میں لیا تو قریبی پولیس چیک پوسٹ کے باہر دو سو کے قریب مرد جمع ہو گئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے‘‘۔

اطلاعات کے مطابق یہ اٹھارہ سالہ مسیحی نوجوان ایک قریبی مزار سے پلاسٹک کی بوتلیں اور ردی اکٹھی کرتاہے اور اسے کوئی علم نہیں کہ ردی میں کیا ہے۔ نوجوان کے والد نے کہا کہ ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانےاور ردی اکٹھی کرکے اپنی روزی کماتے ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ محمد الیاس عرف مجو بھی اس کے بیٹے کے ساتھ ایک مزار سے خالی بوتلیں اٹھاتا ہے اور وہ اس کے بیٹے کو منع کرتا تھا کہ میرے علاقے سے بوتلیں نہ اٹھایا کرو۔

ملزم کے والد نے کہا کہ اس کے بیٹے کو پھنسایا گیا ہے ۔ کسی نے مزار کے پاس قرآن کے اوراق جلا کر پھینکے تھے۔ اس نے بتایا کہ قاری رانا ارشد جو کہ امام مسجدہے نے بغیر کوئی بات کہے میرے بیٹے کو پیٹنا شروع کردیا اور ہجوم اکٹھا کر لیا۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کئی مرتبہ ہجوم کے ہاتھوں قتل بھی کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم اقبال کا کہنا تھا، ’’ہم نے خفیہ طور پر ملزم کو وزیر آباد کے ایک تھانے میں منتقل کر دیا، جہاں تفتیش کے دوران ملزم نے اقبال جرم کر لیا۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اب اس مسیحی نوجوان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

پولیس کے مطابق آصف مسیح پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295بی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس پاکستانی قانون کے مطابق مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین پر موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب قابل سزا جرم اور ایک حساس معاملہ ہے۔ تاہم اس قدامت پسند معاشرے میں اکثر توہین مذہب کے الزامات کی تصدیق کیے بغیر ہی ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کر دیے جانے کے واقعات دیکھے جا چکے ہیں۔

رواں برس جون میں ایک پاکستانی عدالت نے فیس بُک پر توہین مذہب کے مرتکب ہونے کے جرم میں ایک شخص کو سزائے موت سنائی تھی۔ مئی کے مہینے میں بھی ایک ہندو شہری کو مبینہ طور پر ’توہین آمیز‘ مواد شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد اسے مارنے کے لیے مقامی تھانے پر ہجوم نے حملہ کر دیا تھا۔ اس واقعے میں ایک دس سالہ بچہ ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔

DW/Express Tribune

Comments are closed.