پاکستان اور بھارت میں پڑھائی جانے والی کتب میں ریاستوں کی جانب سے اپنے اپنے ’قوم پرستانہ‘ بیانیوں کے ذریعے اپنی مرضی کی تاریخ بچوں کو پڑھائی جا رہی ہے۔ دونوں ممالک میں تقسیمِ ہند سے متعلق پڑھایا جانا والا مواد ایک دوسرے سے یک سر مختلف ہے۔
سرکاری طور پر تقسیم کے وقت کے اصل حالات سے پہلو تہی اور مختلف بیانیوں کو اسکولوں میں پڑھانے کا معاملہ نئی دہلی سے کراچی تک پھیلا ہوا ہے اور مبصرین کے مطابق نصابی کتب میں موجود مواد میں یہی ’الزام تراشیاں‘ جوہری صلاحیت کے حامل ان دونوں ممالک میں امن اور مفاہمت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
وسطِ اگست میں یہ دونوں ممالک اپنا اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ستر برس قبل برصغیر ٹوٹ کر دو آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوا تھا، جس سے ہندو اکثریتی بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان وجود میں آئے تھے۔
جدید تاریخ میں اسے سب سے بڑی انسانی مہاجرت قرار دیا جاتا ہے،۔اس دوران کئی ملین افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی جانب ہجرت کرنا پڑی تھی۔اور اس عمل میں کئی لاکھ افراد خون میں نہلائے گئے۔اس تقسیم نے مذہب کے نام پر قتل و غارت کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
انہی پرتشدد واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیاد پڑی جو اب تک چلی آ رہی ہے۔
پاکستانی صوبے بلوچستان میں سرکاری طور پر تصدیق شدہ پانچویں جماعت کی کتاب میں ہندوؤں کو ’لٹیرے‘ قرار دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ انہوں نے ’مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی املاک پر قبضے کرتے ہوئے انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا‘‘۔
پاکستانی نصاب، ڈراموں ، فلموں اور میڈیا میں ہندو کو ایک چالاک اور مکار قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازش کرتا رہتا ہے ۔ مگر عملی طور صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم کی بدولت صورتحال کم ازکم پاکستان سے بہتر ہے۔
پاکستان میں کوئی غیر مسلم اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا جبکہ ہندوستان میں ایک مسلمان اپنی کارگردگی اور لیاقت کی بنا پر اعلیٰ عہدوں تک جاسکتا ہے۔
اپنی درسی کتاب میں درج تاریخ ہی سے اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرنے والے، ایک پاکستانی طالب علم کے مطابق، ’’وہ ہمیں نیچ سمجھتے تھے، اسی لیے ہم نے پاکستان بنایا‘‘۔ پاکستانی صوبے پنجاب سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے مطابق انہیں درسی کتابوں میں یہی پڑھایا گیا ہے۔
دوسری طرف ممبئی میں پڑھنے والے طالب علم کا کہنا ہے کہ کس طرح برطانوی راج سے آزادی کے لیے مہاتما گاندھی نے جدوجہد کی، جب کہ بانیء پاکستان محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے لیے علیحدہ ملک قائم کیا۔
پندرہ سالہ اس بھارتی طالب علم کے مطابق مطالعہ تقسیمِ ہند میں یہ درج نہیں ہے کہ آیا مسلمان بھی اس عمل میں جناح کے ساتھ تھے یا نہیں۔
بھارت میں نصابی کتب میں گاندھی سے متعلق مواد دونوں ممالک میں تقسیمِ ہند سے متعلق پائی جانے والی مختلف رائے کا عکاس ہے۔ پاکستان میں نصابی کتب برطانوی راج کے خلاف مہاتما گاندھی کی جدوجہد سے یک سر خالی دکھائی دیتی ہیں جب کہ بھارت میں ’صرف مہاتما گاندھی ہی‘ آزادی کے واحد رہنما نظر آتے ہیں۔
بھارت ریاست گجرات میں زیرتعلیم ایک اور طالب علم کے مطابق، ’’ہماری ہاں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگ ہم نے جیتی اور ان کے ہاں تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ جنگ انہوں نے جیتی‘‘۔
DW/News Desk