پاکستان میں اس وقت امریکا سے نفرت کی دھند اتنی دبیز ہے کہ ہم مستقبل میں جھانکنا تو دور کی بات، حال کو سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے ہیں۔ ایک جانب نفرت کی یہ انتہا کہ ہمارے ہر عذاب کا ذمہ دار امریکہ اور دوسری جانب یہ صورت کہ اس ملک کا کم وبیش ہر فرد امریکہ جانے کی خواہش میں مرا جاتا ہے۔ برصغیر میں بحیثیت حکمران جب سے ہمارا پاؤں اقتدارکے زینے سے پھسلا ہے تب سے ہمہ وقت ہم کوئی نہ کوئی ایسا دشمن ڈھونڈتے رہتے ہیں جسے اپنی ناکامی کا الزام دے سکیں۔ آج جس امریکہ کی توپوں میں ہم کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں، کل تک یہی امریکہ بے خدا روس کے خلاف ’جہاد‘ میں ہمارا سب سے بڑا باخدا اتحادی تھا۔ڈالر تو تب بھی ملتے تھے اور اب بھی ملتے ہیں۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ تب بدمعاشوں کو پالنے کے لیے ملتے تھے اور اب انہی بدمعاشوں کو مارنے کے لیے ملتے ہیں۔
ہمارے بھولے بادشاہ عمران خان ہر سوال کے جواب میں طوطے کی مانند ایک ہی بات دہراتے رہتے ہیں کہ دیکھیں جی اس حکومت کو شرم نہیں آتی کہ امریکہ سے ڈالروں کی بھیک مانگتی رہتی ہے۔ موصوف نے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو یقیناًاس الزام کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کی دیوار نہ اٹھاتے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ یہ بانئ پاکستان حضرت قائداعظم کی سربراہی میں بننے والی اولین حکومت تھی جس نے امریکہ سے ( عوام کے لیے نہیں بلکہ فوج کے لیے) دو ارب ڈالر کی امداد طلب کی تھی لیکن اس کے جائنٹ چیف آف سٹاف نے حقارت کے ساتھ اس درخواست کو رد کردیا تھا۔
امریکہ سے نفرت سر آنکھوں پر، لیکن کیا مضائقہ ہے اگر تھوڑا سا اس تاریخ میں جھانک لیا جائے جسے مخصوص سیاسی مفادات کے حامل شاطر گروہوں نے آج تک ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بننے دیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائداعظم کی نظر میں نہ تو بھارت پاکستان کا دشمن نمبر ایک تھا اور نہ ہی امریکہ۔ہاں اگرانہیں کسی ملک سے کد تھی تو وہ تھا روس۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے ، اس کے ساتھ تو وہ مشترکہ دفاعی معاہدہ تک کرنے کو تیار تھے۔ لندن ٹائمز کی 22مئی 47ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ان کا (یعنی جناح کا) خیال تھا کہ ہندوستان اور پاکستان باہمی مفاد کی خاطر بیرونی جارحیت کے خلاف دفاعی معاہدہ کر لیں۔‘‘ اس سے بہت پہلے ’تصورِ پاکستان‘ کے خالق علامہ اقبال اپنی تمام آفاقی اور اسلامی شاعری کے علی الرغم ہندووں کو یہ یقین دلارہے تھے اگر فیڈرل اسمبلی میں مسلمانوں کو ۳۳ فی صد نمائندگی دے دی جائے تو اس کے بدلے میں غیر ملکی جارحیت کی صورت میں انہیں اپنی حفاظت کے لیے باسٹھ فی صد مسلم فوج دستیاب ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آج ہمارے جہادی مولوی جس بھارت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی خواہش میں مرے جاتے ہیں، حکیم الامت حضرتِ اقبال اسی بھارت کو مسلمان فوج کے حفاظتی حصار کی پیش کش فرمارہے تھے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ہماری نظریاتی بوالعجبیوں اور عملی ناکامیوں سے تشکیل پانے والی جھنجھلاہٹ زدہ نفسیات کو صلح جو اقبال اور لبرل جناح وارہ نہیں کھاتے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم سے قائدِ ملت تک امریکی حکمرانوں کو مسلسل یہ باور کرواتے رہے کہ دیکھو ہمارے پاس ایمان سے لبریز بہترین فوج ہے اور تمہارے پاس تباہی کے بہترین ہتھیار، روس ہمارا مشترکہ دشمن ہے۔ ہمیں اسلحہ دو اور جہاں چاہے لڑواؤ، ہم حاضر ہیں، اے امریکہ ہم حاضر ہیں۔۔۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے فوراََ بعد ایک امریکی رپورٹر مارگریٹ بورک وائیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’’پاکستان کو امریکہ کی جتنی ضرورت ہے، امریکہ کو پاکستان کی اس سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بڑے رازدارانہ انداز میں کہا کہ ’’روس زیادہ دور نہیں ہے۔۔۔‘‘ اب ان تاریخی حقائق سے کوئی اسلامی دانشور ’امریکہ اور بھارت دشمنی‘ کا سکہ بند تصور برآمد کرلے تو ہم بھلا اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ امریکہ نے ہمارے ترلے منتوں کے باوجود شروع شروع میں ہمیں بالکل گھاس نہیں ڈالی۔اگرچہ ہم نے کراچی کی سڑکوں پر گندم بردار اونٹوں کی گردنوں میں ’’تھینک یو امریکہ‘‘ کے پٹے ضرور ڈالے۔ جب امریکی اور برطانوی مفادات کو ایران میں پہلی بار مصدق انقلاب کی صورت میں زک پہنچی تو انہیں پاکستانی جرنیلوں کو گود لینے کا خیال آیا۔غالباَ یہ 54ء کی بات ہے جب پینٹاگان کے کرتا دھرتا’یو ایس ملٹری اسسٹینس پروگرام‘ کا منصوبہ لے کر جی ایچ کیو پہنچے۔
پاکستانی فوج کے ایک منتخب گروپ کو اسلحے کے ساتھ ساتھ ٹریننگ دینے کا معاہدہ طے پایا مگر اس شرط کے ساتھ کہ امریکی تربیت اور اسلحہ سے لیس فوج کا یہ حصہ بھارت کے خلاف ہرگز ہرگز استعمال نہیں ہوگا۔ہماری خوبی دیکھئے کہ ہم نے اپنی تمام تر ’بھارت دشمنی‘ کے باوجود یہ شرط تسلیم کر لی۔65ء کی جنگ میں جب ہم نے امریکہ سے کیے گئے عہد کی خلاف ورزی کی تو اس نے ہمارا ناطقہ یوں بند کیا کہ صرف سترہ دن کے بعد ہمیں جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑ گیا۔وقت کا جبر دیکھئے کہ جنگ بندی کے لیے ہمیں اسی ’بے خدا ‘روس کے دروازے پر جانا پڑا جس کی تباہی کے شوق میں ہم امریکہ کی دریوزہ گری کرتے آئے تھے۔
قائداعظم تو بھارت کے ساتھ کسی نفرت اور دشمنی کے روادار نہیں تھے بلکہ وہ پڑوسی ملک سے کینیڈا اور امریکہ کے مماثل تعلقات کے آرزو مند تھے۔ہندوستان کے ساتھ ان کا اختلاف مذہبی نہیں سیاسی تھا ۔ اس سیاسی اختلاف کو مذہبی دشمنی میں تو فوج، فیوڈلز اور مُلاّ نے بدلا۔اس ملک کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے ضروری تھا کہ قوم کو باور کروایا جائے کہ جب تک اس دنیا میں کمیونسٹ روس اور بھارت جیسے کافر ملک کا وجود باقی ہے، تب تک اسلام خطرے میں رہے گا۔ بغل میں کمیونسٹ چین بھی موجود تھا مگر معلوم نہیں اس پر ہم نے یہ اصول کیوں لاگو نہیں کیا بلکہ اس کی تمام تر دہریت کے باوجود اسے اپنا بہترین دوست کہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا معاملہ اسلام کا ہے یا مفادات کا؟؟؟
جہاد کے خاتمے تک اسلام کی علمبردار کسی جماعت نے کبھی امریکہ مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔ دراصل تب تک ڈالروں کا راتب وافر مقدار میں نصیب تھا اور اب حالت یہ ہے کہ چچوڑنے کو ہڈی بھی دستیاب نہیں۔جس ملک کے مُلاّ اپنے کوتاہ قسم کے سیاسی مفادات کے لیے سرسید، اقبال اور جناح جیسی شخصیات کو کافر قرار دے سکتے ہیں ، ان کے لیے عیسائی امریکہ کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ثابت کرنا کون سی مشکل بات ہے؟ تو جناب معاملہ نہ روس کا تھا نہ امریکہ کا ہے، بس اگر کچھ ہے تو سیاسی مفادات کا شاخسانہ ہے۔ غور کریں تو تھینک یو امریکہ سے مردہ باد امریکہ تک یہی کہانی پھیلی ہوئی نظر آئے گی۔
♥
One Comment