اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال گزر چکے ہیں۔ ہر سال اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی نہایت جوش و خروش کے ساتھ ملک بھر میں جشنِ آزادی کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری عمارتوں کو چراغاں اور سبز ہلالی پرچم سے سجایا جاتا ہے، گلی، کوچوں اور بازاروں سے ملیِ نغموں اور آزادی کے گیت کی صدائیں گونجتی ہیں جو ایک طرح سے ہماری قومی روایت بن چکی ہے اور جس سے ہم اپنی نام نہاد آزادی کا اظہار کرتے ہیں لیکن بظاہر اگر دیکھا جائے تو ہمیں آزادی کا دنِ اور مہینہ ضرور یاد ہے لیکن آزادی کا مفہوم نہیں۔
آزادی کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ قوم کے افراد اپنے افکار، نظریات اور فلسفے کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں اور اپنی خواہشوں کی تکمیل میں کسی قسم کی رکاوٹ محسوس نہ کریں جبکہ آزادی کا مقصد یہ ہے کہ افراد اپنے اُن تمام افکار، نظریات، فلسفہ، حقوق اور تہذیبی ورثے کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اس کے ارتقاء میں بھی کردار ادا کرکے ہر قسم کے رکاوٹوں کی عدم موجودگی کو یقینی بنائیں۔
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قید و بند اور اسیری کے باوجود اپنے ضمیر کی آزاد فضاؤں میں اڑُتے پھرتے ہیں کیونکہ انُ کا زندہ ضمیر اور شعور انُہیں مسُلسل اُس اسیری کے خلاف جدوجہد کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی ضمیر کا سودا کرکے عظیم الشان محِلوں میں رہ کر بھی آزادی سے محروم ہیں۔ پاکستانی قوم بھی شاید دنیا میں وہ واحد بد نصیب ، بے ضمیر اور بے شعور قوم ہو جو بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود دانستہ یا نا دانستہ طور پر آزادی کا جشن مناتا ہو۔
ہماری مثال اُس بے عقل پرندے کی مانندِ ہے جو لوہے کی قفس سے سونے کے قفس میں قید ہونے پر خوشی کا اظہار کرتا ہے لیکن قفس سے آزاد ہونے کی آرزو کو مکمل طور پر دلِ سے نکال چکا ہے۔ اگر ہم یومِ آزادی 1947سے پاکستان کا موازنہ 1945 کی دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر تباہ اور از سر نو آباد ہونے والے دو ملکوں یعنی جرمنی اور جاپان سے کریں تو ہمیں ہماری جہالت، پستی، ناکامی اور ضمیر فروشی آسانی سے ظاہر ہوتی ہوئی نظر آئیگی اور یہی وجہ ہے کہ ہم دن بہ دن مختلف بحرانوں کا شکار ہو، ہماری جہالت میں دن بہ دن اضافہ اور ہماری تخلیقی سوچ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
جس طرح ایک پرندے کی آزادی اسُ کی خودمختارانہ پرواز ہوتی ہے، ٹھیک اسُی طرح سے انسان کی آزادی بھی اُسکی سوچ و فکر، نظریات اور بنیادی حقوق کی آزادی میں چھُپی ہوتی ہیں لیکن جب ہمیں انسان کی بنیادی حقوق سے ہی محروم رکھا جائے تو آزادی کیسی اور جشن کس بات کا؟
آئیں پاکستان کی آئین 1973کے حصّہِ دوئم جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق تفصیلی طور پر بیان کی گئی ہیں ، پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ پاکستان کی آئین 1973 میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور حکمتِ عملی کے شقِ نمبر9، فرد کی سلامتی کی یقین دہانی کراتا ہے جسکے مطابق کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں افراد کی سلامتی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ شقِ نمبر11 غلامی کی ممانعت کرتا نظر آتا ہے لیکن اسکے با وجود مکمل آمریت اور جمہوری بہروپیوں میں چھُپی آمریت کئی سالوں سے ہمیں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے۔
شقِ نمبر 10 ہمیں گرفتاری سے تحفُظ کی یقین دہانی کراتا توشقِ نمبر19 آزادیِ اظہارِ رائے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسکے بر عکس یہاں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط، حق گوصحافیوں، اور انصاف کی بات کرنے والوں کو دنِ دھاڑے لاپتہ کرکے سالوں سال غائب کردیا جاتا ہے۔ شقِ نمبر 15ہمیں نقل و حرکت کی آزادی فراہم کرتا ہے تو شق نمبر 18تجارت و کاروبار یا پیشے کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن اسکے باوجود ہمیں تجارت و کاروبار اور تعلیم و پیشے سے محروم کرکے ہماری نقل و حرکت کو محدود کرکے ہمیں آزاد گھومنے پھرِنے سے روکا جا تا ہے۔
شق نمبر 14 انسان کی حُرمت کو نا قابلِ انفاق قرار دیتی ہے تو شق نمبر 25اے شہریوں میں مساوات کا حکُم دیتی ہے لیکن یہاں کھُلم کھُلا تفریق کرکے اقلیتوں پر ظُلم کرکے انِہیں قربانی کا بکرا بنا کر انسان اور انسانیت کی بے حُرمتی و توہین کی جاتی ہیں۔ شق نمبر 24 حقوقِ جائیداد کی تحفُظ کراتی نظر آتی ہے تو شق نمبر 20 مذہبی آزادی کی یقین دہانی کراتی ہے لیکن اسکے باوجود مذہب کو نہ ماننے پر توہین آمیز الزامات کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں اور جائیداد و وسائلِ پر حق مانگنے والوں کو غدار قرار دیکر مار دیا جاتا ہے۔لیکن انِ تمام ظُلم اور نا انصافیوں کے باوجود حکمُران، ریاست اور ریاستی ادارے خود کو بر ی الّذِمہ قرار دیتے ہیں کیونکہ انِ تمام نا انصافیوں اور ظُلم کے باوجود ہم خوشیاں اور جشن منا کر انِ کو بری الّذِمہ قرار دینے میں ان کا ساتھ دے رہیں ہیں۔
کیا انِ تمام انسانی بنیادی حقوق کی پامالی کے باوجود ہم ایک آزاد قوم کہلانے کے قابلِ ہیں؟
کیا ہم آزادی کے مفہوم پر پورا اتر رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنی نظریات و افکار اور فلسفے کے تحت بنائے گئے دستور و آئین کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا ہم آزادی کے مقصد سمجھ چکے ہیں؟ کیا ہم اپنی نظریات و افکار، حقوق اور تہذیبی ورثے کو برقرار رکھ کر اُنھیں تحفُظ دے رہیں ہیں؟کیا ہم اپنی نظریات و افکار اور حقوق کی ارتقاء میں کوئی کردار ادا کر رہیں ہیں؟ کیا ہماری انِ نظریات، افکار ،حقوق اور تہذیب سے بنائی گئی آئین کا استحصال نہیں ہو رہا؟ کیا ہمارے ضمیر آزاد ہیں۔۔۔؟
انِ تمام سوالات کے جواب میں ہمارے پاس خامو شی کے سوا اور کچھ نہیں لیکن اگر پھرِ بھی ہمیں اپنی قومی روایت برقرار رکھنی ہے تو جشنِ آزادی ضرور منائیں لیکن ساتھ میں اپنی جہالت اور بے شعوری کا جشن بھی منانا چاہیے،انسانی حقوق کی پامالی کا بھی جشن منانا چاہیے، سالوں سے گزارتی ہوئی غلامی کی زندگی کا بھی جشن منانا چاہیے، اپنی آئین کی استحصال کا بھی جشن منانا چاہیے اور ہاں۔۔۔ اپنی ضمیر کی موت کا بھی جشن منانا چاہیے۔
♦
5 Comments