گزشتہ پیر کو ا فغانستان اور پاکستان کے دو اہم شہر ایک مرتبہ پھر زوردار دھماکوں سے لرز اٹھے۔یہ دونوں خودکش حملے تھے اور مجموعی طور پر ساٹھ سے زیادہ مسلمان اس میں ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ پہلا حملہ پیر کی صبح افغانستان کے دل کابل جبکہ دوسرا دھماکہ شام چار بجے پاکستان کے دل لاہور میں ہوا۔کابل حملے کے فوراً بعد میاں نواز شریف نے معمول کی طرح افغان صدر اشرف غنی کو اس حملے پر تعزیتی پیغام بھیجا جبکہ اسی نوع کی تعزیت شاید اس مرتبہ افغان حکومت نے بھی کی ہوگی۔
لیکن حقیقت میں مرحوم محمد نادر شاہ (ظاہر شاہ کے والد) کا کابل اورمرحوم اقبال کا لاہور ایک دوسرے سے بہت دور ہوگئے ہیں ۔لاہور کواپنا گھرسمجھنے والے نادر شاہ مرحوم کے پیشرو ؤں کے ہاں گویا وہی آج کل افغانوں کے خلاف سازشوں کا مرکز ہے او را فغانستان کوجس اقبال نے پورے ایشیاء کے امن کا ضامن سمجھاتھا، اسی کے پاس بھی آج ایک برادر ملک کے امن کی گارنٹی نہیں،علیٰ ھٰذالقیاس ۔ افغانستان اُسی زمانے میں انگریز سامراج کی ریشہ دوانیوں کے بعدبچہ سقہ اور کلکانی جیسے لوگوں کے ہاتھوں زچ ہوچکاتھا جبکہ نادر شاہ اسے اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کیلئے مہمات چلارہے تھے۔
ا فغانستان جاتے ہوئے ایک دفعہ لاہور اسٹیشن پر نادر شاہ اور اقبال کی ملاقات ہوئی۔کہا جاتاہے کہ اس وقت اقبال نے اپنے بھائی نادرشاہ کے گھرافغانستان کی کسمپرسی کو محسوس کرتے ہوئے حسبِ توفیق انہیں افغانستان کی خوشحالی مہم کیلئے اپنی جیب سے پانچ سوروپے عطیہ کیے اور کہا کہ آپ ایک بڑی مہم سرکرنے جارہے ہیں، میں ایک فقیر آدمی ہوں لہٰذا اس رقم کو قبول کرلیجیے۔اس پر نادرشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے فقیر کی اس رقم کو نیک شگون سمجھتے ہوئے بڑے احترام سے قبول کرلیا۔اس کے علاوہ اقبال نے کئی طریقوں سے ان کی مددجاری رکھا،یہ سب اس لئے کیا گیا کہ اقبال کے نزدیک ایک پرامن اور خوشحال وسطی ایشیاء کی بقا کے لئے ایک سالم اور خوشحال افغانستان کا وجود ناگزیر تھا،
آسیا یک پیکر آب وگل است
چار سال بعداکتوبر 1933 کوافغانستان کے تعلیمی امور اورکابل یونیورسٹی کے بارے میں مشاورت کی غرض سے افغان حکمران نادرشاہ نے اپنے بھائی اقبال اوراس کے ساتھ سیدسلیمان ندوی اور سید راس مسعود کو مشاورت کے لئے کابل کے دورہ کے لئے بھی مدعو کرلیا۔افغان حکومت کی خواہش پر اس وفد نے تیرہ اکتوبر 1933کو جشن استقلال کے موقع پر کابل پہنچناتھامگر سفری دستاویزات عجلت میں تیار نہ ہونے کی بناء پر بالآخر یہ حضرات بیس ا کتوبر کو پشاور کے راستے افغانستان داخل ہوئے۔
اس سے قبل اقبال نے باقاعدہ اپنے ایک بیان میں اس دورے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ فرمایا’’کہ تعلیم یافتہ افغانستان ہمارا بہترین دوست ہوسکتاہے ، کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور ہندوستان کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج پشاور کو ایک دوسری یونیورسٹی میں منتقل کرنے کی اسکیم ہندوستان اور افغانستان کے درمیان علاقے میں آباد ہوشیارافغان قبائل کی فلاح وبہبود کیلئے بہت زیادہ مفید ثابت ہونگے۔شاہ افغانستان نے تعلیمی امورپر مشاورت لینے کے لئے ہمیں افغانستان کے دورے کی دعوت دی ہے جس کو قبول کرنا ہم نے اپنا فرض سمجھاہے ۔
کابل کی مطبوعات اور جریدوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ افغانوں کی نئی نسل نئے علوم کی تحصیل اور انہیں اپنے دین اور تمدن کے سانچے میں ڈالنے کے بہت متمنی ہیں، سو ہندوستانیوں کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی ترقی میں ان کا ہاتھ بٹائیں‘‘۔اقبال کا وفد پشاور میں ٹھہرنے کے بعد 23اکتوبر کو کابل پہنچا جہاں انہیں کابل کی نئی آبادی دارالامان کے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایاگیا۔قصر دلکشا میں پھر اقبال کی ملاقات نادر شاہ سے ہوئی ،اس ملاقات کے دوران اقبال نے انہیں شاہ مرحوم کو قرآن کریم کی ایک جلد بھی تحفتاً دے دی۔
کہا جاتاہے کہ اسی دوران عصر کی نماز کا وقت آگیا تو اقبال نے نادرشاہ کی امامت میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہاکہ’’ آج میں آپ کی امامت میں نماز پڑھوں گا ، سو امامت آپ کو کرنی ہوگی‘‘۔افغانستان کی تعلیمی مستقبل پر طویل مشاورت کے دوران اقبال اور ان کے ساتھیوں کی ملاقات مجددی سلسلے کے روحانی پیشوا ملا شوربازار (فضل عمر) سے بھی ملاقات ہوئی جو 1918کی جنگ افغانستان کے دوران جرنیل نادر شاہ کے ساتھ شریک جہادرہے تھے ۔
واپسی پر اقبال ، مولانا ندوی اور راس مسعود اپنے دیگر ساتھیوں سمیت تیس اکتوبر کو صبح سرورخان گویا کی معیت میں غزنی روانہ ہوئے جہاں وہ محمود غزنوی ، حضرت داتا گنج بخش ؒ اور’’ مجذوب لائے خوار‘‘ کی تربت پر جانے کے حکیم سنائی ؒ کے مزار پر بھی گئے ۔ مولٰنا ندوی کے بقول حکیم سنائی ؒ سے بے پناہ محبت کی وجہ سے اقبال ان کے سرہانے کھڑے ہوکر زورزورسے روتے رہے ‘‘۔افغانستان کی روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے وفدکایہ کامیاب دورہ قندہار پر ختم ہواجہاں 2نومبر1933کو گورنر قندہار نے روانگی سے قبل خشک میوہ جات اور قندہاری انار کے بھرے ٹوکرے مہمانوں کو پیش کرکے انہیں رخصت کیا۔
چمن کوئٹہ کے راستے ملتان اور پھرلاہور پہنچنے پر اقبال نے اپنے دورے کے بعد اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہاکہ ’’ افغانستان سے ہم اس یقین کے ساتھ واپس آئے ہیں کہ اگر موجودہ حکام کو دس سال تک اپنا کام جاری رکھنے کا موقع مل جائے تو بلاشبہ افغانستان کا مستقبل روشن ہے‘‘۔ بدقسمتی سے دس سال کیا مزید دس دن بھی نادرشاہ کو مزید حکومت چلانے کی مہلت نہیں دی گئی اور اگلے ہی روز سات نومبر کو نادرشاہ کو کابل میں شہیدکردیا۔
کہاں اقبال اورنادر کی جگری دوستی اورکابل ، لاہور کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کاوشیں اورکہاں آج کا کابل، قندہاراورلاہور، پشاورکوئٹہ ؟چار دہائیاں بیت گئیں لیکن دین اسلام کے علاوہ بہت سے دیگرمشترک اقداررکھنے کے باوجود لاہوراور کابل کے بیچ فاصلے کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔اقبال اور نادر شاہ محبتیں بانٹتے تھے لیکن آج دونوں طرف کے حکمران اتنے گئے گزرے بن گئے ہیں کہ اپنے درمیان کی عداوتوں میں کمی لانے سے بھی عاجز ہیں۔کاش دونوں برادر اسلامی ملک اپنے آپ کومزیدجہل مرکب سے نکال لیں اوراصل دشمن کو پہچان کرکے ایک دوسرے کوبرداشت کرلیں۔