آصف جاوید
ہمارا مقصد قائدِ اعظم کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ ہم ببانگِ دہل تسلیم کرتے ہیں کہ قائدِ اعظم ایک با اصول سیاستدان تھے، مگر برِّ صغیر کے سیاسی منظرنامے میں تقسیم اور آزادی سے قبل کے عرصے میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئے مصلحتاً یا ضرورتاً جھوٹ بولنا یا سیاست میں مذہب کا کارڈ کھیل کر جیت حاصل کرنا قائدِ اعظم کی مجبوری تھی۔ اگر قائدِ اعظم ایسا نہیں کرتے تو آج تاریخ اور برِّ صغیر کے مسلمان قائدِ اعظم پر لعنتیں بھیج رہے ہوتے، قائدِ اعظم نے سیاست میں جیت کے نشان تک پہنچنے کے لئے اگر جھوٹ بولا یا سیاست میں مذہب کا کارڈ کھیلا تو اس جھوٹ کو دروغ بر مصلحت آمیز ہی سمجھا جائے گا، قائدِ اعظم کو ذاتی طور پر جھوٹا نہیں سمجھا جائے گا۔
سنہ 1947 سے قبل کے معروضی حالات میں قائدِ اعظم نے جو بھی اقدامات اٹھائے، مسلمانوں کی بھلائی کے لئے اٹھائے۔ اپنی ذاتی منفعت کے لئے نہیں اٹھائے، ہاں یہ دیگر بات ہے کہ قائدِ اعظم ایک خود پسند، اور انا پسند انسان تھے، سیاست میں ڈکٹیشن دیتے تھے، لیتے نہیں تھے۔ مسلم لیگ میں بڑے بڑے زعماء اور ان کے رفقاءِ کار بھی ان کے سامنے بھیگی بلّی بنے رہتے تھے۔ کسی کو قائدِ اعظم کے سامنے چوں و چرا کی ہمّت نہیں ہوتی تھی۔
مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر ہونے کے باوجود قائدِ اعظم میں مسلمانوں والی کوئی بات نہیں تھی۔ نماز روزے اور دیگر عبادات سے قائدِ اعظم کا دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ قائدِ اعظم انگریزی بود و باش اختیار رکھتے تھے، ، کھلے بندوں سگار اور وہسکی سے لطف اندوز ہوتے تھے، خنزیر کے گوشت کے ساسیجز ، اعلیٰ شراب اور کتّوں کو پسند فرماتے تھے، مخلوط پارٹیوں میں شرکت کرتے تھے، کسی قسم کی منافقانہ زندگی نہیں گزارتے تھے۔
ہماری نوجوان نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ملک کو بنائے جانے کے اصل محرّکات اور وجوہات کیا تھیں؟؟؟؟ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنائے جانے کے محرّکات میں سرِ فہرست ، برِّ صغیر کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے استحصالی چنگل سے آزادی دلانا تھا۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔
پاکستان کا ایک حلقہ فکر آج بھی یہ اصرار کر رہا ہے کہ پاکستان اسلام کی سر بلندی کے لئے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ آج واہگہ بارڈر پر 400 فٹ اونچا پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستان کی مسلّح افواج کا سربراہ ، کہہ رہا ہے کہ پاکستان 27 رمضان المبارک کو معرضِ وجود میں آیا تھا، اللہ کا خصوصی کرم ہے اس پر، اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ ہم پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔
حالانکہ تقسیم سے قبل بات اسلامی شرعی ریاست کے قیام کی بالکل بھی نہیں ہو رہی تھی، بلکہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت کی بات ہو رہی تھی۔ قرارداد لاہور میں اسلام یا آزادی کے بعد پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا اور علّامہ اقبال یا قائدِ اعظم نے نفاذِ اسلام یا اسلامی شرعی ریاست کے قیام کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔
اس مرحلے پر میرا بنیاد پروستوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ پاکستان اگر اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے قائم کیا جا رہا تھا تو قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان کیوں تسلیم کر لیا تھا؟؟؟۔
کیبنٹ مشن کا تو بنیادی مقصد ہی ہندوستان کی تقسیم کو روکنا تھا۔ اگر پاکستان ہی نہ بنتا تو اسلام کا تجربہ کہاں کیا جاتا؟؟؟
قیام پاکستان کی شدت کے ساتھ مخالفت ہندو اور مسلمان دونوں ہی مل کر کررہے تھے۔ مہاتما گاندھی کہہ چکے تھے کہ پاکستان صرف ان کی لاش پر ہی بن سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبدلغفار خان مسلمان ہوکر بھی قیامِ پاکستان کے خلاف تھے۔ ایک بڑی قوت جمعیت علمائے ہند قیام پاکستان کے خلاف اور اکھنڈ بھارت کی حامی تھی۔ پنجاب میں ’’احرار‘‘ ایک بڑی جماعت تھی یہ بھی قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ سرحد میں سرحدی گاندھی کی خدائی خدمت گار تحریک ایک بڑی عوامی تحریک تھی، جوپاکستان کے قیام کی مخالف تھی۔ سب سے بڑھ کر قیام پاکستان کے وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جو اکھنڈ بھارت کی حامی تھی، مزید یہ کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا اپنا جھکاؤ گاندھی اور نہرو کی جانب تھا۔
بات سیاست میں مذہب کا کارڈ کھیلنے سے متعلّق ہورہی تھی، قائدِ اعظم اگر قیامِ پاکستان کو یقینی بنانے سے پہلے مسلمانوں اور انگریزوں کو یہ بتادیتے کہ وہ ایک سیکولر اور لبرل ریاست بنانے جارہے ہیں تو برِّ صغیر کے مسلمان اور مسلم لیگ بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتی، اور انگریزبھی مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کبھی نہ دیتے۔ اور قائدِ اعظم پاکستان کا مقدمہ ہار جاتے، چنانچہ قائدِ اعظم نے گیارہ اگست ، سنہ 1947 سے پہلے سیاست میں مذہب کو بطور کارڈ کھیلا، جیت حاصل کی ، مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا، پھر گیارہ اگست 1947 کو مجلس قانون ساز میں اپنے خطاب میں پاکستان کی نئی ریاست کے خدوخال واضح کئے۔ یعنی سیکولر پاکستان کی بلّی تھیلی سے باہر نکالی۔
اوپر بیان کئے گئے منظرنامے اور سیاسی حقائق کے باوجود 1946 میں قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کرلیا تھا، جس کے تحت ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل میں آزاد کرنا تھا مگر اس کو تین زون میں تقسیم کرنا مقصود تھا، منصوبے کے تحت دس سال بعد اگر کوئی زون علیحدہ ہونا چاہے تو الگ ہوسکتا تھا۔ (یقیناً قائداعظم نے 10 سال بعد علیحدگی کے اختیار کو غنیمت جانتے ہوئے اس کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرلیا تھا، مگر مخالفین نے پروپیگنڈا کیا کہ قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے)۔ اس مرحلے پر پنڈت جواہر لال نہرو سے ایک سیاسی غلطی سرزرد ہوگئی اور قائدِ اعظم نے اس ہی کی غلطی کو پکڑ کر کھیل کا پانسا پلٹ دیا۔
کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لعل نہرو کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ ایک دفعہ ہندوستان ایک وحدت کی شکل میں آزاد ہوجائے اور مرکزی حکومت قائم ہوجائے تو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے۔قائداعظم نے فوراً نہرو کے دل کے اس کھوٹ کو پکڑ لیا اور کیبنٹ مشن پلان کو فوراً رد کردیا کہ جب نیت پہلے ہی خراب ہو تو بھلا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یوں نہرو کی ایک غلطی اور قائدِ اعظم کے تدبّر نے قیام پاکستان کو امر کردیا۔
قیامِ پاکستان کا منظرنامہ اور کیبنٹ مشن پلان کی مزید تفصیلات اگلے مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
♦
10 Comments