قائدِ اعظم ، قول و فعل کے تضادات

آصف جاوید

قائدِ اعظم محمّد علی جناح کے بارے میں یہ تاثّر عام ہے کہ قائدِ اعظم ایک بااصول، ایماندار، سچّے اور کھرے سیاستدان تھے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے، کسی کو دھوکا نہیں دیتے تھے، کسی کا اعتبار مجروح نہیں کرتے تھے، اور کبھی مفادات کی سیاست نہیں کرتے تھے۔

ہمیں بھی قائدِ اعظم کی شخصیت کے ان تمام اوصاف پر کبھی شک نہیں رہا ہے، مگر ہم جب تاریخِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں ، مسلم لیگ کے قیام، دوقومی نظریہ کا پرچار ، مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کی جدوجہد، حصولِ پاکستان، 11 اگست ، سنہ1947 ء کو مجلسِ قانون ساز میں قائدِ اعظم کی تقریر جو دراصل پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے خدوخال کا ایک خاکہ تھا، ، نئی کابینہ کی تشکیل میں قلمدانوں کی تقسیم ، بحیثیت گورنر جنرل قائدِ اعظم کے اقدامات، اپنے یومِ وفات تک قائدِ اعظم کے ریاستی امور پر فیصلے ، جب ان سب موضوعات پر تاریخی مواد کو کھنگالتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی غلط بیانی ضرور ہوئی ہے۔

برِّ صغیر کے مسلمانوں کو کوئی نہ کوئی فریب ضرور دیا گیا ہے۔ ہمارا مقصد قائدِ اعظم کو خدانخواستہ کوئی دھوکے باز یا فریبی لیڈر قرار دینا ہر گز نہیں ہے، ہم تو تاریخ کے طالبعلم ہیں۔ اکثر ایسا تاریخی مواد ہاتھ لگ جاتا ہے جو ہمارے ناپختہ ذہن اور خام معلومات کی دھجّیاں بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ برِّ صغیر کے مسلمانوں ،خاص کر بنگالیوں اور مہاجروں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہو۔

جن مقاصد کو سامنے رکھ کر حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی گئی تھی، ملک تقسیم کیا گیا تھا، زمین تقسیم کی گئی تھی، تبادلہ آبادی ہوا تھا، ہجرت کی گئی تھی، جان و مال کی قربانیاں دی گئی تھیں، عزّتیں پامال ہوئی تھیں، خاک و خون کے دریا پار کئے گئے تھے۔ جس دو قومی نظرئیے کے تحت پاکستان بنایا گیا تھا، وہ صرف مقصد حاصل کرنے کے لئے ایک سلوگن تھا، پاکستان کا مقدمہ جیتنے کے لئے ایک دلیل تھی۔

جس کو ایک ذہین و چالاک وکیل نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے بڑی کامیابی اور بے رحمی سے استعمال کیا تھا، اور جب مقصد حاصل ہوگیا ، مقدمہ جیت لیا گیا ، تو دلیل کو دلیل ہی رہنے دیا گیا، کبھی پاکستان کو ایک اسلامی شرعی ریاست یا فلاحی اسلامی مملکت بنانے کی کوئی شعوری کوشش جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔ اور اگر کی بھی جاتی تو کیوں کر کی جاتی؟۔

قائدِ اعظم کو ئی کٹّر ملّا تو تھے نہیں، ایک مہذّب اور اعلیتعلیم یافتہ وکیل تھے، جو علی الاعلان شراب پیتے تھے، خنزیر کھاتے تھے، کلب جاتے تھے، مخلوط پاٹیوں میں شرکت کرتے تھے، نماز روزے حج، زکوۃ سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، اور نہ ہی وہ کسی دینی مدرسے کے فارغ التحصیل ملّا تھے، وہ تو انگلینڈ کی مشہور قانونی درسگاہ لنکنز ان سے قانون کی پریکٹس اور تعلیم کے سند یافتہ تھے اور ایک کامیاب وکیل تھے۔ ۔

قائدِ اعظم بنیادی انسانی حقوق، انسانی مساوات و برابری کے اصول،جمہوری نظامِ حکومت، ہندوستان کے کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب معاشرے میں عوامی تعلّقات، باہمی میل جول، اور مشترکہ تاریخی و ثقافتی ورثے اور بین المذاہب تعلّقات کی اہمیت ، زمین حقائق کے ادراک اور جدید زندگی کے تقاضوں کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ قائدِ اعظم ایک کامیاب اور ذہین وکیل تھے، جو دلیل اور نظیر کی طاقت سے مقدمہ لڑنے اور جیتنے کے ماہر تھے۔

قائدِ اعظم برِّ صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ کے متّفقہ لیڈر اور سیاستدان تھے۔ قائدِ اعظم نے ایک سوشل سائنٹسٹ اور زیرک سیاستداں کے طور پر برِّ صغیر کی سیاست میں مذہب کےبطور ہتھیار استعمال کا کامیاب تجربہ کیا، قول و فعل کے تضادات کے اعلینمونے پیش کئے، قائدِ اعظم نے دو قومی نظرئیے کو پاکستان کا مقدمہ لڑنے اور جیتنے کے لئے بڑی مہارت اور کامیابی سے ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا، اور جب مقدمہ جیت لیا تو، دلیل کو دلیل ہی رہنے دیا، کبھی بھی مسلمانوں کو دکھائے گئے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوئی شعوری وعملی اقدامات نہیں کئے۔

بلکہ 11 اگست سنہ 1974 ء کو قیامِ پاکستان کے رسمی اعلان سے تین دن قبل کراچی میں مجلسِ قانون ساز سے خطاب کرتے ہوئے، گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر قوم کو صاف صاف بتا دیا، کہ پاکستان کو کوئی تھیاکریٹک یعنی مذہبی ریاست نہیں بنایا جائے گا۔ بلکہ پاکستان ایک سیکیولر ریاست ہوگا، جس میں تمام مذاہب کے لوگ امن و آشتی اور وقار کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر رہیں گے۔ حوالے کے لئے ہم یہاں مجلسِ قانون ساز میں قائدِ اعظم کی مشہور تقریر کا اقتباس کا ویڈیو کلپ پیش کررہےہیں۔

 

قارئین سے درخواست ہے کہ اس اقتباس کو سن کر اندازہ لگائیں کہ کیاقائدِ اعظم پاکستان کو ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے؟ یا ایک سیکیولر لبرل ریاست؟اور اگر قائدِ اعظم پاکستان کو ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست بنانا چاہتے تو تو پھر 11 اگست سنہ 1947 ء کو مجلس قانون ساز سے خطاب میں قائدِ اعظم کیا قوم کے سامنے ہذیان بک رہے تھے؟ یا پھر اپنی پوری سچّائی اور دیانتداری کے ساتھ ایک نئی ریاست کے خدوخال بیان کررہے تھے؟۔

اور پھر جب پاکستان کی پہلی کابینہ تشکیل دی گئی تو اس کابینہ میں گنتی کے چند وزراء میں غیر مسلم وزیروں کو اتنی اہم وزراتیں کیوں دی گئیں؟، کیوں کابینہ کی تشکیل میں کسی دینی مدرسے کے فارغ التحصیل ملّا ، کسی عالم دین، کسی فقیہہِ شہر کو وزیر یا مشیر شامل نہیں کیا گیا؟ گورنر جنرل ہاؤس میں آزادی کی خوشی میں دی گئی ضیافت میں کھلے عام شراب و خنزیر کیوں پیش کیا گیاتھا؟۔

قائدِ اعظم کی موجودگی میں مخلوط پارٹیاں کیوں ہوتی تھیں؟ ۔ کیوں پاکستان سے جاگیر داری کا خاتمہ نہیں کیا گیا؟، جب پاکستان کو اسلامی شرعی ریاست بنانا ہی نہیں تھا تو پھر ہندوستان کی تقسیم کیوں کی گئی؟ دونوں طرف کے لوگوں کو کیوں ہجرت پر مجبور کیا گیا؟ کیوں آگ و خون کے دریا پار کئے گئے؟ غیر منقسم ہندوستان میں رہنے میں مسلمانوں کو کیا تکلیف تھی؟ قائدِ اعظم جب تک زندہ رہے کسی مائی کے لال میں یہ جراءت کیوں نہ ہوئی کہ وہ قائدِ اعظم سے ان سوالوں کے جواب طلب کرسکے؟

اپنی وفات کے دن تک قائدِ اعظم کے کئے گئے فیصلوں اور کابینہ کے اجلاسوں میں کوئی بھی ایسااقدام کیوں نہیں اٹھایا گیا ؟جس سے یہ ثابت ہو کہ قائدِ اعظم پاکستان کو ایک بنیاد پرست شرعی اسلامی ریاست، اسلام کا قلعہ اور صرف مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنانا چاہتے تھے۔ مگر نہیں بنا سکے۔

جب تک پاکستان قائم ہے، تاریخ ان تمام سوالات کے جواب مانگتی رہے گی۔ ہمارا مقصد قائدِ اعظم کو ایک مکّار اور چالاک اور فریبی سیاستداں ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے ذہنی خلفشار کا جواب تلاش کرنا ہے، اگر آپ میں سے کوئی تاریخی حوالہ جات سے یہ ثابت کردے کے قائدِ اعظم ، پاکستان کو ایک اسلامی شرعی ریاست بنانا چاہتے تھے، تو اس کا یہ تاریخ اور پاکستانی قوم پر ایک احسان ہوگا۔

یا تو ہم غلط ہیں، یا پھر تاریخ یا پھر قائدِ اعظم اور ان کی مسلم لیگ ؟ کوئی ایک نہ ایک مجرم ضرور ہے، بس آپ نے ا ن ہی سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہیں۔ اگر ان سوالوں کو اٹھانے پر ہم قصور وار ثابت ہوگئے تو آپ پر اپنا خون معاف کرتے ہیں۔ جو چاہیں سزا دے دیں ، شرط صرف ہمیں قصوروار ثابت کرنے کی ہے۔ جو شاید آپ نہ کرسکیں۔

12 Comments