ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
بلاخر آٹھ اگست آہی گیا، وہ دن اور وہ گھڑی آن ہی پہنچی جس نے چند ثانیوں میں دھرتی پر رہنے والے نوجوانوں کے خوابوں کی کایا پلٹ دی تھی۔ یوں جلدی سے گذرجانے والے سالوں سے بہت مختلف، اس بار اگست کے مہینے نے پہنچتے پہنچتے کئی بار قدم روکا ہوگا، اگر ممکن ہوتا تو وقت کے قاضی سے یہی سوال کیا جاسکتا تھا کہ اگست کے مہینے سے آٹھ کا ہندسہ نکال ہی دیں، کہ اس کی آمد سے غم رفتگان ایک دفعہ پھر تازہ ہوجاتا ہے۔ جو شہید ہوئے وہ امر رہے، جو زخمی اور معذور ہوئے وہ زندگی کے بے مہر لمحات میں گذشتہ رفاقتوں کے بیتے خوشگوار لمحات سے دل کو لبھانے کا سامان کرتے رہے ، جو خاندان اجڑ گئے وہ لٹتے لٹاتے واپس اپنے آبائی علاقوں کی جانب چلے گئے، بوڑھے دادا اور دادی یتیم بچیوں اور بچوں کو جھوٹ موٹ کی تسلیاں دیتے دیتے تھک گئے اور شہسوار والد کے گرائے جانے کے بعد جنم لینے والے بچوں نے ابھی گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد ظلمت شب کے لرزتے بے کیف سائے شہر کوئٹہ اور بلوچستان کے گرد و نواح پر بدستور اپنے پر پھیلاتے رہے، یاد رفتگاں کے یادوں کی شمعیں کم ہی بجھی ہوں گی، ہر اجتماع، خوشی اور غم کے ہر منظر میں داستان کے رومانوی کرداروں کی مانند خوبصورت نوجوانوں کی تصویریں اور یادیں لاشعور کے شکستہ دیوار پھلانگ کر اس واقعے کی یاد تازہ کراتے گئے، ہر میٹھے لمحے سے اکتاہٹ ، جُرم اور بے بسی کا ایک ایسا احساس جنم لیتا رہا جیسے کھانے میں ریت کی گٹھلی دانتوں کے درمیان پس جائے ۔عید کی پر کیف شامیں انکی یادیں یاد دلاتی رہیں اور چاندنی بھی برابر دل دکھاتی رہی ۔
ہم نے اگرچہ اس واقعے کو اپنے اعصاب پر سے ہٹانے کے کئی شعوری کاوشیں کیں، لیکن سب ناکام، ہر روز گھر سے دفتر جاتے وقت بس یہی خیال دامن گیر رہتا کہ موت کے سوداگروں کا جھتہ ابھی نمودار ہوا۔ اگست کے واقعے کے بعد 25 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ اکیڈمی پر دھاوا بولا گیا، ساٹھ سے زیادہ نوجوان پولیس اہلکار شہید ہوئے۔
اس کے بعد خوف اور یاسیت نے مستقل ڈیرے ڈالے، ایف سی اہلکاروں نے شہر کے ہر روڈ پر اپنے مورچے تعمیر کئے، سیکیورٹی سے لیکر ٹریفک کے قوانین کی پاسداری تک انکے زمرے میں آئی، یونیورسٹی میں باقاعدہ قیام کیلئے سپورٹس کمپلیکس حوالے کیا گیا۔ مستقل پیٹرولنگ شروع ہوئی اور شہر کے مکینوں پر تاریخ کے تاریک ترین دن اور راتیں گزرنے لگیں، اگرچہ ایف سی اہلکار دن رات جاگتے رہے، لیکن ہماری آنکھوں سے نیند اور دلوں سے سکون پتہ نہیں کہاں چلا گیا ۔
بے یقینی کے اس پورے سال میں کبھی اچانک روڈ جام ہوجاتے، شوشا چھوڑا جاتا کہ کہ بم کا خدشہ ہے، گھنٹوں لوگ گاڑیوں میں محصور ہاجاتے، اور پھر کبھی ممکنہ خودکش حملہ کی آمد کی نوید سنائی جاتی، ان کے خاکے جاری کئےجاتے، بچیوں اور بچوں کے سکولوں کے بیرونئ دیواروں پر ان خاکوں سے متعلق تفصیلات درج ہوتیں، انکے اہداف سے متعلق ہدایات درج ہوتیں ، بچوں کو برابر یقین ہو چلا تھا کہ ایسی حالت میں انکا پڑھنا اور نہ پڑھنا ایک ہی برابر ہے۔ ہم نے اگر چہ اپنی ذاتی نقل و حرکت محدود رکھی، لیکن جب بھی بازار جانا ہوتا ہے ، آٹھ اگست کے شہیدوں کو کوئی نہ کوئی حوالہ یاد آہی جاتا ۔
شہر کے وسط میں جہاں سول ہسپتا ل واقع ہے، کشت وخون کے اس دردناک واقعے کے اثرات ابھی تک تازہ ہیں۔ جہاں یہ واقعہ ہوا ہے اسے شہدا کی یادگار سے منسوب کیا گیا، اور وہاں پرانکی تصاویر کا ایک بڑا پینا فلیکس آویزاں کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد درد اور داخلی کرب سے بچنے کیلئے مجھ جیسے کئی لوگ بارہا اس ہسپتال سے گزرنا ترک کر تےرہے۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس گاؤں نما شہر کے ہر چائے کے ہوٹل ، سکول اور کالج ، شاہراہ اور کھیل کے میدان سے کسی نہ کسی کی یادیں ضرور امنڈ آتی ہیں ۔ چلتے چلتے کسی شاہراہ کے نکڑ پر یا پلازے کی پیشانی پر ٹانکی ہوئی پینا فلیکس دکھائی دے جاتی ہے،تصویر اور الفاظ راہگیروں کی جانب سوالیہ انداز سے گویا ہوتا ہیں۔
۔ “بازمحمد ہم شرمندہ ہیں۔۔۔ تیرےقاتل زندہ ہیں“۔
دل میں یکسر خیال عود آتا ہے کہ کیا واقعی انکے قاتل زندہ ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں۔ہمارے مہان وزیر داخلہ بگٹی صاحب تو کب کا قاتلوں اور مرکزی کرداروں کی کمر تھوڑ دی ہے۔ ان پر زمین آسمان ایک کیا گیا اور انہوں نے اس کار بد سے دست کشی کا اعلان بھی کرلیا ۔شاہد انہی کی کارروائی سے مرعوب ہوکر احسان اللہ احسان نے بھی توبہ کرلی ہو، لیکن اس واقعے سے متعلق ایک ہی دم کا کام ہوا جسے تاریخ “قاضی فائز عیسیٰ جوڈیشیل انکوائری رپورٹ “کے نام سے یاد کرے گی۔
اس رپورٹ کا لب لباب وہی ہے کہ شہیدوں کے قاتل ہنوز زندہ ہیں، اور انکے سہولت کار اندر ہی موجود ہیں۔ واقعے کی روک تھام اور ردعمل سے متعلق متعلقہ اداروں کی مکمل عدم فعالیت اور غیر پیشہ ورانہ روئے کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔ اس رپورٹ میں دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق پاکستانی ریاست کی حکمت عملی کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے، وزیر داخلہ کی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں اور ان سے متعلق نرم خوئی کو بھی طشت ازبام کیا۔ مقامی ہسپتالوں کی حالت زار، اور اس سانحے سے متعلق سرکاری ہسپتالوں کی غیر سنجیدہ خدمات اور سہولیات کو بھی شدید انداز میں ہدف تنقید بنایا گیا ۔
لیکن ان سطور کے لکھنے تک یہ سوال آج بھی غور طلب ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کا قومی بیانیہ کیا ہے۔ ایک سمت میں اگرچہ چند منتخب علاقوں میں فوجی آپریشن کیا جارہا ہے، جبکہ دوسرے سرے پر تا حال کام کرنے کےکوئی خاص آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انتہائی اہم سرا ہے جس سے دہشت گردی کی فکری، نظریاتی اور عقیدوی جڑیں منسلک ہیں۔
سوال یہی ہے کہ کیا آج بھی نفرت انگیز تقاریر پر پابندی ہے، کیا جمعہ کی نماز میں خطبات سے متعلق حکومت یا متعلقہ اداروں کا کوئی پروگرام ہے؟، کیا سکولوں اور مدارس میں دیگر مذاہب سے متعلق نفرت انگیز مواد کو ہٹانے یا تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیا دیواروں پر نفرت انگیز نعروں کا کچھ کیا گیا، کیا متوازی عسکری جتھوں کی سرپرستی پر نظر ثانی کے حوالے سے کچھ کیا گیا؟؟
یہ وہ سوالات ہیں جن پر ابھی تک عملی لحاظ سے کوئی خاطر خوا کام نہیں کیا گیا۔ چونکہ یہ سارا مظہر نوجوانوں کی مخصوص تربیت سے جڑا ہوا ہے اور تربیت اس عمل کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی جامع پالیسی یا حکمت عملی وجود میں نہیں آئی، اسلئے ابھی بیانئے کی جنگ جیتنے کی نوید سنانا لوگوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
باقی اب شہرکوئٹہ کی ناپختہ خون چکاں گلیوں پر تارکول کی موٹی تہہ بچھائی گئی ہے، شہر میں گذشتہ پانچ سال سے زیر تکمیل پانچ سو میٹر فلائی اوور بھی تکمیل کے مرحلے میں ہے، کوئٹہ بیوٹیفیکیشن پروجیکٹ کے قابل ستائیش ڈیزائنروں نے خصوصا اعلیٰ حکام کی گذرگاوں پر روشن چمک پٹیاں بھی لگا لی ہیں، لیکن اس سارے بندوبست میں شہدا کوئٹہ کیلئے کسی معقول ” یادگار” یا “مونومنٹ” بنانے کا خیال ابھی کسی کو نہیں آیا۔انکے خاندانوں کو متوقع حکومتی ریلیف ابھی کس مرحلے میں ہے ، اور ان کو تربیت دینے والے ادارے میں کیا اصلاحات لائی گئیں یہ سارے وہ پہلو ہیں جو بہت جلد بصارت اور یادداشت سے محو ہوجاتے ہیں۔
وکلا کی شہادت نے اگرچہ پروفیشنل سطح پر شدید قحط کو جنم دیا، لیکن اس فیلڈ میں ابھی سینکڑوں درخشاں ستارے جگمگانے کو ہیں، زخم کھا کر ہنسنے کا جبر ابھی ہمیں سیکھنا ہے۔جب تک دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی سوچ تنو مند اور مضبوط ہے، اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا ایک فطری امر ٹھہرے گا۔
♦