پاکستان میں جمعہ گیارہ اگست کو اقلیتوں کا قومی دن منایاگیا ہے۔ لیکن پاکستان میں کئی لوگ یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا اس ملک میں تمام اقلیتوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور ریاست کے مطابق مساوی حقوق حاصل ہیں۔
گیارہ اگست کا یہ دن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تقریر کو بنیاد پرمنایا جارہا ہے جو انھوں نے پاکستان کی پہلی آئین اور قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے بظور صدر/سپیکر خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اپنی اس تقریرمیں انھوں نے پاکستان کے مستقبل کے آئین کے بنیادی خدوخال واضح کئے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریرمیں پاکستان کے تمام شہریوں کے مساوی شہری حقوق کی بات کی تھی۔
محمد علی جناح نے مذہب کی بنیاد پر اقلیت اور اکثریت کے تصور کو رد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ریاست کا کسی شہری کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ ہر شہری کا ذاتی معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وقت آئے گا کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پراقلیت اور اکریث کا تصور ختم ہوجائے گا اور ریاست پاکستان کے تمام شہریوں کو مساوی آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر سال اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشان دہی کرتی ہیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کو شکایت یہ ہے کہ ان تنظیموں کی رپورٹوں پر حکام کی طرف سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی جاتی۔
اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کو آئین کا حصہ بنایا جائے، نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور اس میں ایسے مواد کا خاتمہ کیا جائے، جو مذہبی تفریق کو ہوا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا قانون بھی بنایا جائے ، جس کے تحت مذہب اور عقیدے کے نام پر امتیازی اختیار کرنے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکے۔
لاہور کی تقریب میں مقررین نے کہا یہ اقدام قائد اعظم کے تصورِ پاکستان کا عکاس ہے۔ مقررین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ آئین کی وہ شقیں، جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں، ان میں ترمیم کی جائے۔
اس تقریب کے منتظم اور سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے اس قومی دن کی مناسبت سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ یہ خطاب جناح کے تصور پاکستان کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم یہ مطالبہ پندرہ برسوں سے کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے وقت سیاسی جماعتیں ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے قریب تھیں لیکں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ ہم لیکن سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی اور فرقہ ورانہ نفرت کو ختم کرنے کے لیے اس تقریر کے ذریعے بانی پاکستان کے تصور ریاست کو فروغ دینا بہت ضروری ہے‘‘۔
پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے کہ صرف اس طرح کے دن منانے سے اقلیتوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سیاست دانوں کو جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قیام پاکستان کے وقت جناح اور غیر مسلم پاکستانیوں کے درمیان یہ معاہدہ تھا کہ پاکستان میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہو گی اور نہ یہ ملک کوئی مذہبی ریاست بنے گا۔ قائد اعظم نے اس بات کو 1946میں اپنے ایک انٹرویو میں بھی واضح کیا تھا، جس میں انہوں نے اس بات کا کھلم کھلا اعلان کیا تھا کہ پاکستان کوئی تھیوکریسی نہیں ہو گا۔‘‘
ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے متعارف کردہ آئین نے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا۔ ’’آج ہم صدر، وزیر اعظم اور پارلیمانی اسپیکر سمیت کسی اعلیٰ عہدے تک نہیں پہنچ سکتے۔ فوج میں بھی اعلیٰ عہدوں پر ہم نہیں جا سکتے۔ منڈل کے بعد کوئی غیر مسلم وزیر قانون بھی نہیں بنا۔ ملازمتوں میں ہمیں دیے گئے کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ نصاب کی وجہ سے ملک کے دیہی علاقوں میں ہمیں شدید تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اندورن سندھ ہندو لڑکیوں کو جبراًﹰ مسلمان بنایا جا رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ صرف لڑکیاں ہی مسلمان ہو رہی ہیں اور وہ بھی بارہ سے چودہ برس کی۔ ان کے زبردستی نکاح کروا کے دو چار ہفتے کے لیے انہیں غائب کر دیا جاتا ہے اور پھر کسی عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بالغ اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہے، تو اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عبیداللہ سندھی بھی تو مسلمان ہوئے تھے۔ لیکن زبردستی مذہب تبدیل کروانے سے ہندوؤں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جے پال نے کہا، ’’سندھ کے کئی علاقوں میں ہندو ڈاکٹروں اور تاجروں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔کئی بہترین ڈاکٹر ترک وطن کر کے بھارت جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تاجر بھی یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہے ہیں۔ جبری طور پر تبدیلی مذہب کی وجہ سے بھی لوگ ترک وطن پر مجبور ہوئے ہیں‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری سماجی تنظیموں کوگیارہ اگست کویوم اقلیت نہیں یوم مساوی شہری حقوق منانا چاہیے۔پاکستان میں کوئی اقلیت نہیں سب برابر کے شہری ہیں جن شہریوں کو مذہب کے نام پر دوسرے درجے کا شہری بنایا گیا ہے ان کے مساوی شہری حقوق کی بات کرنا چاہیے۔ آئین سے وہ تمام شقیں جو مذہب کے نام پر شہریوں کے مابین تفریق پیدا کرتی ہیں ان کے خاتمے کے لئے عوام میں شعورو آگاہی پیدا کرنا چاہیے تاکہ ہم ایسے سماج کی طرف بڑھ سکیں جو تمام شہریوں کے مساوی انسانی حقوق کا ضامن ہو۔
♦
5 Comments