آصف جیلانی
پاکستان کے معزول اور مفرور سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے بی بی سی پر ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر ملک کو ٹھیک کرتے ہیں اور سویلینز بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان کے عوام کے یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں، اور ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ملک کے دگر گوں حالات پر صرف فوجی حکومت ہی قابو پا سکتی ہے اور مصایب اور مشکلات سے نجات کے لئے وہ فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ وجہ صحیح حالات اور تناظر سے لا علمی اور بے خبری ہے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان میں پہلے فوجی طالع آزما ایوب خان کے دور کا صحیح ادراک نہیں۔ کاش انہیں اس کا علم ہو کہ ایوب خان کے ظہور سے پہلے حالات اتنے خراب نہیں تھے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی ضرورت ہوتی۔ خود ایوب خان کے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری پر اسرار حالات میں ہوئی تھی جس کے پیچھے اسکندر مرزا کا سازشی ذہن کام کر رہا تھا۔
جنوری 1951میں پاکستان کی بری فوج کے پہلے پاکستانی سربراہ کے انتخاب کے وقت چار سینئر افسر میدان میں تھے۔ میجر جنرل افتخار خان، میجر جنرل اکبر خان، میجر جنرل اشفاق المجید اور میجر جنرل رضا۔ ان میں سے میجر جنرل افتخار خان کو تین اسٹار رینک دے کر ترقی دی گئی تھی اور انہیں فوج کا پہلا پاکستانی سربراہ نامزد کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ پر اسرار فضائی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔سیکریٹری وزارت دفاع اسکندر مرزا نے بقیہ تین سینئر افسروں کو نظر انداز کر کے ان پر سب سے جونیر میجر جنرل ایوب کو سبقت دے کر ان کے نام پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کی منظوری لے کر فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔
پرویز مشرف ، ایوب خان کی تعریف کرتے ہیں غالباً اس بناء پر ایوب خان نے امریکیوں کو پشاور کے قریب ، بڈ بیر کا اڈہ دے کر پاکستان کو سرد جنگ میں جھونک دیا تھا ،بالکل اسی طرح ، جیسے کہ 9/11کے بعد مشرف نے امریکی وزیر خارجہ پاول کی صرف ایک دھمکی پر پاکستان کو افغانستان میں امریکی جنگ کی آگ میں دھکیلا تھا جس میں چوبیس ہزار پاکستانی جاں بحق ہوگئے اور پاکستان ، امریکا کے ڈرون حملوں کے عذاب میں ایسا گرفتار ہوگیاکہ ابھی تک اس سے نجات نہیں مل سکی ہے۔
پرویز مشرف نے ایوب خان کے ’’کار کردگی کی دہائی ‘‘ کے ڈونگرے برسائے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوب خان کے دس سال کی حکومت میں ملک نے ترقی کے ریکارڈ قائم کئے۔ غالباً سابق فوجی آمر کو اس کا ادراک نہیں کہ در اصل یہ مشرقی پاکستان کے پٹ سن کی سونے کے بھاؤ قیمت کا چمتکار تھا اور پاکستان کی صنعتی ترقی کا آغاز تھا جو امریکی امداد کا مرہون منت تھا۔ ایوب خان کے سر اگر کوئی سہرا بندھتا ہے تو وہ بلوچستان میں فوجی کاروائی کے آغاز کا سہرا ہے جس کے نتیجہ میں شورش آگ کی مانند بھڑک اٹھی ،جس سے اب بھی بلوچستان جھلس رہا ہے۔
اور یہ ایوب خان کا دور تھا جب مشرقی پاکستان میں اقتصادی اور سیاسی محرومی کے سائے پھیلنے شروع ہوئے اور مغربی پاکستان میں اقتصادی ابتری ، ایوب خان کے زوال کا باعث بنی ۔ عصری تاریخ میں ایوب خان پہلے اور واحد فیلڈ مارشل ہیں جو کوئی جنگ جیتے بغیر اس اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ پرویز مشرف اس کو بھی فوج کی شان قرار دیں گے؟
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں فوج کا نہیں بلکہ بھٹو کا قصور تھا ، وہ کہتے ہیں کہ کچھ الزام یحییٰ خان پر بھی آتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ملک کے دو لخت ہونے میں بھٹو کا مجرمانہ سیاسی رول تھا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مشرف نے اس حقیقت کو کیسے یکسر نظر انداز کر دیا کہ ملک دو لخت بنگلہ دیش کی جنگ میں فوج کی شکست کے نتیجہ میں ہواجس کے الزام سے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان بری نہیں ہو سکتے۔یہ بھٹو کی مصلحت تھی کہ پاکستان کی اس فوجی شکست اور ملک سے غداری کے الزام میں یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا ، کیونکہ پانی نشیب میں آتا تھا اور اگر یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا تو بھٹو کس طرح اس الزام سے بچ سکتے تھے کہ انہوں نے ۷۰ ء کے انتخاب کا نتیجہ تسلیم نہیں کیا اور جمہوریت کُش راہ اختیار کی۔
پرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ ’’ایشیاء کے سارے ممالک میں دیکھیں جہان بھی ترقی ہوئی ہے صرف ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے‘‘۔ مشرف کو اس کا علم نہیں کہ ملائیشیاء میں ترقی مہا تیر محمد کی جمہوری حکومت کے دور میں ہوئی اور اب بھی ملائیشیاء آمریت کے مرض سے پاک ہے۔ لوگ کہیں گے کہ ایشیاء کے خوشحال ترین سنگا پور میں کیا ، لی کیوان یو کی ڈکٹیٹرشب تھی یا موجودہ صدر ٹونی ٹین کی فوجی حکومت ہے جس کی بدولت سنگا پور نے ترقی کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اور کیا ایشیا ء میں فوجی حکومتوں کا حال پرویز مشرف کو معلوم نہیں۔ دور کیوں جایئے ، برما کو لیجیے فوجیوں نے آکر وہاں کیا تباہی مچائی ہے اور حال میں روہنگا مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری کا کیسا ہولناک سلسلہ جاری ہے۔
پرویز مشرف ، ذرا مصر پر بھی ایک نظر ڈال لیں وہاں فوجی طالع آزما نے کیا قیامت مچا رکھی ہے اور اپنے مخالفین کو کس طرح عدالتوں کے جال میں جکڑ کر انہیں موت کی سزائیں دی جارہی ہیں۔
اس وقت مناسب نہیں کہ مشرف صاحب !آپ کے دور کا تجزیہ کیا جائے کیونکہ آپ کمر میں موچ کے علاج کے لئے ملک سے مفرور ہیں ۔ جب آپ اپنے خلاف غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنے وطن واپس آئیں گے اور اپنی پرانی فوج کی آڑ نہ لیں گے تو اس وقت آپ کے کرتوتوں کا حساب مناسب ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں کوئی فوجی حکمران نہیں جو آپ کوریلیف دے سکے۔
♦
One Comment