سابق وزیرا عظم سچ کہتے ہیں۔ حق حاکمیت صرف عوام کو حاصل ہے۔ یہ بات اصولی اور نظریاتی ، دونوں اعتبار سے د رست ہے۔ دنیا کے تمام مہذب اور جمہوری ملکوں میں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ مگر پاکستان کے تناظر میں یہ بات ابھی تک پوری طرح تسلیم نہیں کی گئی۔
جیسا کہ سابق وزیر اعظم نے فرمایا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ آج تک سترہ وزرائے اعظم کے ساتھ بیت چکا۔ کسی کو گولی ماری گئی، کسی کو برطرف کیا گیا۔کسی کو پھانسی چڑھایا گیا۔ اور کسی کو نا اہل قرار دیا گیا۔ یہ ایک پرانا مقدمہ ہے۔پاکستانی عوام بنام چند لوگ نامی یہ مقدمہ گزشتہ ستر سال سے ہماری کچہریوں میں ہے۔مگر اس مقدمے کا فیصلہ ہر بار عوام کے خلاف اور چند لوگوں کے حق میں ہو جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے ؟ جواب تاریخ میں موجود ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ایک آزاد خیال آدمی تھے۔ مگر دو چیزوں پر ان کا یقین پختہ تھا۔ جمہوریت اور مذہبی رواداری۔ یہ دو ایسی آدرشیں تھیں جن سے شروع دن سے ہی کچھ طاقت ور لوگ بدکتے تھے۔ جمہوریت سے وہ لوگ خائف تھے جو اس نظام کے اندر صرف عوام کے خادم بن سکتے تھے۔ کوئی سپاہی بن سکتا تھا۔ کوئی منصف۔ مگر یہ بننے کے بعد ان کے دلوں میں عوام پر حکومت کرنے کی خواہش جاگنے لگتی تھی۔ اب جمہوریت میں یہ خواہش تو پوری ہو نہ سکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے جمہوریت کی بساط بچھنے سے پہلے ہی لپیٹنے کا بندو بست شروع کر دیا تھا۔
ا س مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ایسے فطری اتحادی ڈھونڈ نکالے جو ان کی طرح جمہوریت سے خار کھاتے تھے۔ ان میں نام نہاد مذہبی پیشوا، جاگیردار، وڈیرے اور سرداروغیرہ شامل تھے۔ ان سب نے مل کرعوام کے حق حکمرانی کو محدود کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے شروع کر دئیے۔ ان میں آئینی، قانونی، سیاسی اور نظریاتی ہتھکنڈے شامل تھے۔ خدا کی دھرتی پر خدا کی حاکمیت سے کسے انکار ہے؟ مگر اس بات کو آئین میں اس نیت سے شامل کیا جائے کہ اس سے عوام کے حق حکمرانی کی نفی کرنے میں مدد ملے ، اور یہ تاثر دیا جائے کہ یہ چند چنے ہوئے اور برگزیدہ لوگوں کا حق ہے تو یہ خدا کی برتری کا اعتراف نہیں ، اس آڑ میں عوام سے ان کا حق چھیننے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔
یہ چنے ہوئے چند لوگ ریاستی طاقت اور اثر کے بل بوتے پر یہ تاثر پھیلائیں کہ پاکستان کے عوام جاہل اور لیڈر نا اہل ہیں ۔ان کے اندر درست فیصلے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ درست راستہ صرف ان کی برطرفی اور آمریت کا قیام ہے۔عوام کے حق حکمرانی کی نفی کے لیے یہ تاثر عام کیا جائے کہ جمہوریت سے ہمارا کیا تعلق؟ یہ تو مغرب کا ایجاد کردہ ایک شیطانی نظام ہے۔ اس نظام میں تو سب لوگوں کو برابر سمجھ کر گنا جا تا ہے۔ اس طرح گننے میں تو گامے ماجھے سب برابر ہوتے ہیں۔ اس میں تو پھر سپاہ سالار سے لیکر منصف اعظم تک سب برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک آدمی ایک ووٹ کا ا صول تو گدھے گھوڑے کو برابر کر دیتا ہے۔
ہم تو لوگوں کو تول کر د یکھنے کے قائل ہیں۔ اس تول مول میں بندے کا قد کاٹھ، چہرہ مہرہ، رنگ نسل، شجرہ نصب، رشتہ ناتہ اور اثرو رسوخ دیکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کتنا ایک حق رائے دہی حاصل ہے اور کتنا حق حکمرانی ؟
ریاستی سر پرستی میں ایسے گمراہ کن تاثرات و خیالات کے زریعے ایک سچی جموریت اور عوام کے حق حکمرانی کے تصوارات کو دھندلا دیا گیا۔ یہ اسی دھندلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ کبھی تو نواز شریف جنرل ضیا کی روحانی شفقت کے سائے میں ذولفقار علی بھٹو جیسے شہید جمہوریت کو غدار اعظم کا لقب دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اور کئی ذولفقار علی بھٹو جیسا نابغہ روزگار مدبر ایوب خان کو ا ایشیا کا ڈیگال کہنے پر مجبور۔کئی بے نظیر جیسی سوشل ڈیموکریٹ آمروں سے خاموش سمجھوتوں پر مجبور اور کئی ولی خان جیسا سیانارہنما فوجی آمروں سے احتساب اور انصاف کا طالب۔
یہ اسی دھندلاہٹ کا نتیجہ تھا کہ جتنے وزرائے اعظم بر طرف ہوئے ان میں سوائے ذولفقار علی بھٹو کے کسی نے بھی وہ مزاحمت نہ کی وقت جس کا متقاضی تھا۔ اب اگر نواز شریف مزاحمت پر اتر آئے تو اس کی تاریخی اہمیت سے محض اس لیے انکار نہیں کیا جا نا چاہیے کہ مزاحمت کار نواز شریف ہیں۔جن کی سیاسی پرورش آمروں کی گودمیں ہوئی۔ جن کا پیشہ تجارت ہے۔ جس کا تعلق ملک کے مراعات یافتہ ترین طبقے سے ہے۔ جو خود حکمران رہے، اور ان کا خاندان حکمران طبقات میں شامل ہے۔یا پھر یہ کہ وہ دائیں بازو کے قدامت پرست سیاست دان ہیں۔
تاریخ میں ہمیشہ آدمی کا پیشہ، اس کا طبقہ یا اس کا خاندان اس کے کردار کا تعین نہیں کرتا۔دنیا میں کچھ بڑے بڑے انقلابی مراعات یافتہ طبقات سے بھی آئے تھے۔اور پھر نواز شریف کسی انقلاب کی نہیں، عوام کے حق حکمرانی کی بات کر رہے ہیں۔یہ ایک سیدھا سادہ اور کم از کم جمہوری مطالبہ ہے جس کی غیر مشروط حمایت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
♦
One Comment