میں پنھل ساریو کو زیادہ نہیں جانتا۔ ان سے واقفیت اس وقت ہوئی جب کامریڈ واحد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف انہوں نے توانا آواز اٹھائی اور ہانی بلوچ کو اجرک کا علامتی تحفہ دیا۔ معلوم ہوا وہ سندھ کے ماما قدیر بلوچ ہیں جنہوں نے زندگی کا مقصد لاپتہ افراد کی بازیابی بنا رکھا ہے۔
انہوں نے “وائس فار مسنگ پرسنز” بناکر اس پلیٹ فارم کے ذریعے لاپتہ افراد کی بازیابی کی اعصاب شکن جدوجہد کی بنا ڈالی۔
لاپتہ افراد بظاہر دو الفاظ کا مرکب ہے مگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ دکھ ، تکلیف ، بے خوابی ، امید و بیم اور انجانے خوف کا ایک گہرا سمندر ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ دروازے پر ہونے والی دستک یا فون کی گھنٹی پر اچھل پڑتے ہیں ، ٹی وی پر نامعلوم لاش ملنے کی خبر پر ان کی حالت ناقابلِ بیان ہوجاتی ہے۔ اس کی درست تشریح صرف وہ کرسکتے ہیں جو اس کرب سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں۔
میں زندگی میں کم از کم دودفعہ اس کرب سے گزرا ہوں ، میرے اس ذاتی تجربے نے میری نفسیاتی زندگی پر کافی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ یوں تو میرے متعدد دوست لاپتہ کئے گئے ہیں لیکن 2013 کا مارچ میرے لئے آج بھی ایک خوفناک خواب ہے جب میرے قریب ترین دوست ، یارِ غار ، ہم پیالہ و ہم نوالہ حاجی رزاق بلوچ لیاری سے خفیہ اداروں کی حراست میں لاپتہ ہوگئے۔
حاجی رزاق کی گمشدگی نے مجھے سرتاپا ہلادیا۔ راتیں بے خواب ہوگئیں ، کھانا زہر لگنے لگا یہ سلسلہ 2013 کے ماہِ اگست کے اندوہناک سانحے پر منتج ہوا۔ حاجی رزاق بلوچ کی مسخ لاش کراچی کے مضافات سے انتہائی خراب حالت میں ملی۔ نرم خو اور ملنسار دوست کی لاش کو بمشکل ان کی ہمشیرہ نے شناخت کیا۔ حاجی رزاق کی جبری گمشدگی و حراستی قتل آج بھی میرے اعصاب پر سوار ہے۔
جولائی 2016 نے پھر 2013 کی تاریخ دہرادی۔ اس دفعہ میرے والد کی طرح محترم کامریڈ واحد بلوچ لاپتہ کئے گئے۔ میں سہم گیا ، اعتراف کرتا ہوں میں ڈرگیا تھا ، ڈر اور خوف نے مجھے ذہنی مریض بنادیا۔ ایک قریبی دوست کے مشورے پر فون وغیرہ بند کرکے سفر پر نکل گیا۔ 20 دن بھٹکتا رہا مگر قرار نہ ملا ، خوف کسی بھی طرح مجھے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ واپس آکر سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے کامریڈ واحد بلوچ بازیاب ہوگئے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے لاپتہ افراد کے قریبی لوگ کس اذیت میں زندگی گزارتے ہیں اس لئے جب بھی میڈیا میں فضول کے تماشے دیکھتا اور سنتا ہوں تو نفرت سی ہوجاتی ہے۔
پنھل ساریو سمیت ہر لاپتہ کو بازیاب ہونا چاہیے ، اس غیرانسانی سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔ یقین مانیے ، جب تک آپ خاموش ہیں ، مجرم ہیں۔
ذوالفقار علی زلفی