ہندوستان کی تقسیم نا گزیر تھی

آصف جاوید

برِّ صغیر ہندوستان میں ہندو مسلم، سکھ، عیسائی، جین ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے رہ رہے تھے۔ عظیم تر ہندوستان کی تاریخ کے شواہد تو دس ہزار سال کے ہیں، مگر پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان کے باشندے ، اپنے اپنے مذاہب، رسوم و رواج کے ساتھ صدیوں سے معاشرتی ہم آہنگی اور ثقافتی رشتوں کے ساتھ بلا کسی مذہبی امتیاز ، آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ان کا ثقافتی ورثہ اور تاریخ مشترک تھی، رسم و رواج، بود و باش کے طریقے ، تھوڑے بہت علاقائی اور مذہبی فرق کے ساتھ ایک ہی رنگ میں ڈھلے ہو ئے تھے۔ اگر کہیں بہت نمایا ں فرق تھا تو وہ مذہب ہی کا فرق تھا۔

ہندو اور مسلم دو واضح سیاسی و سماجی طاقتیں تھیں۔ مغلوں کے عہد سے پہلے بھی ہندو مسلم چپقلش کے شواہد ملتے ہیں۔عظیم تر ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہمیشہ ہندوؤں پر بھاری پڑتے رہے ہیں۔ مغلوں کے عہد سے پہلے بھی مسلمان ایک طاقت شمار کئے جاتے تھے۔ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مذہبی چپقلش کو سازگار حالات انگریزوں کے عہد میں ملے، کیونکہ انگریز وں کےطرز حکمرانی میں شخصی حکومت کا کوئی وجود نہ تھا، برطانوی عہد میں طاقت ، کا اصل منبع قانون، انصاف، اور اصولوں کی حکمرانی تھی۔

انگریزوں کے لئے ہندو و مسلم میں کا فرق کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو سما ج و سیاست میں حصّہ لینے کے یکساں مواقع حاصل تھے۔ سرسیّد کی مسلمانوں کے لئے نمایاں خدمات ان ہی مواقعوں اور ماحول کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ مسلمان اپنی قدامت پرستی اور ملّاؤں کے فتووں کی جکڑ بندی کی وجہ سے پسماندگی ، جہالت و غربت کا شکار تھے۔ جبکہ ہندو معاشرہ قدرے آزاد اور روشن خیال تھا، ہندو تعلیم ، روزگارومعاشی خوشحالی میں مسلمانوں سے بہت آگے تھے۔

ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان معاشی و سماجی طور پر پسماندہ تھے۔ طبقاتی فرق نے مذہبی فرق میں نفرت کا عنصر شامل کردیا تھا۔ہندو مسلم فسادات ان ہی وجوہات کی بناء پر ہوتے تھے۔ ان ہی وجوہات نے آگے چل کر عظیم تر ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ہندوستان کی تقسیم تو ناگزیر تھی، 1947 میں نہ ہوتی تو بعد میں کبھی نہ کبھی ضرور ہوتی، انگریزوں کے ہاتھ نہ ہوتی تو ہندو مسلم فسادات اور آپس میں خانہ جنگی کی وجہ سے ہوتی، جناح اور نہرو کے ہاتھ نہ ہوتی ، تو بعد میں آنے والے لیڈروں کے ہاتھوں ہوتی۔

جناح اور نہرو کو تقسیم ہندوستان کا ذمّہ دار ٹھہرا نا زیادتی ہوگی، دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں ایک گلوبل تبدیلی آئی تھی۔ پوری دنیا میں سماجی و سیاسی تبدیلیوں کی زبردست لہر یں اٹھی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں نے دنیا کو امن سے رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ انگریزوں کے لئے اپنی نو آبادیات کو مزید قائم رکھنا مشکل ہوگیا تھا، برطانوی نو آبادیات میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی لہریں بڑی طاقت سے اٹھ رہی تھیں۔ عظیم تر ہندوستان میں سماجی و سیاسی شعور بالغ ہوچکا تھا۔

دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں اور برطانیہ کی بدحالی نے انگریزوں کی بصیرت پر یہ حقیقت آشکار کردی تھی کہ نو آبادیات کو آزادی دے کر برطانیہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ، نہرو اور محمّد علی جناح دونوں کو روزِ روشن کی طرح معلوم تھا، کہ ہندوستان کو آزادی مل کر رہے گی۔

اصل جھگڑا تو آزادی کے بعد اقتدار کی منتقلی اور وسائل و طاقت میں شراکت و حصّہ داری کا تھا۔ یہیں سے ہندو مسلم مفادات کی جنگ شروع ہوئی ہے۔ میں کل مضمون میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اور تقسیم کے وقت تک کے عرصے کے سماجی و سیاسی حالات کی تاریخ اور کیبنٹ مشن پلان پر گفتگو کروں گا، میرے ساتھ رہئے گا۔

10 Comments