تقسیم ہند کو سات دہائیاں ہو جانے کے باوجود پاکستانی ہندو تشدد اورجبر سے بچنے کے لیے بھارت منتقل ہونے کی جدو جہد میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم وہاں بھی حقیقت ان کے خوابوں سے بالکل بہت دور ہے۔
پاکستانی ریاست کی جانب سے انتہا پسندمذہبی جماعتوں کی سرپرستی سے پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں خاص کر ہندو انتہائی خراب حالات سے دوچار ہیں۔
پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں پر توہین رسالت کا قانون سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے ۔ جو بھی اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کے خلاف آوازاٹھانے کی کوشش کرتاہے اس پر توہین رسالت کا الزام داغ دیا جاتا ہے۔ان کی نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان بنا کر شادی کر لی جاتی ہے اور ظلم یہ ہے کہ پاکستانی عدالتیں بھی مذہبی انتہا پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔
جگ داس پاکستان میں تشدد اور گھٹن سے مجبور ہو کر کئی دہائیوں سے فرار ہو کر بھارت پہنچنے کے خواب دیکھتے رہے۔ مگر بھارت پہنچ کر بھی وہ گھٹن کب ختم ہوئی، جس نے انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے قیام کو ستر برس گزر جانے اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مہاجرت کے باوجود اب بھی پاکستان میں بسنے والے ہندو رفتہ رفتہ بھارت منتقل ہو رہے ہیں۔ بھارت میں انہیں کام کا قانونی اجازت نامہ ملنا مشکل ہوتا ہے اور سرحد عبور کر کے بھارت میں داخل ہونے والے یہ کئی ہزار ہندو باشندے سرحد کے قریبی علاقوں میں خیمہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
کئی افراد اس حالت میں غیرقانونی طور پر پتھر کوٹتے جیسی مشقت کرتے نظر آتے ہیں کیوں کہ بھارتی حکام ان کی حرکات و سکنات پر سخت نگاہ رکھتے ہیں۔ حکام کو خوف یہ ہوتا ہے کہ سرحد کے دوسری جانب سے کوئی مشتبہ شخص ملک میں داخل نہ ہو جائے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت پہنچنے والے ہندوؤں کے لیے یہ ماحول ویسا نہیں، جیسا وہ سوچ کر یہاں پہنچے تھے۔
اٹھارہ سالہ جگ داس کے مطابق، ’’نہ کام ہے، نہ گھر ہے، نہ پیسے ہیں نہ خوراک ہے۔ وہاں (پاکستان میں) ہم کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ ہم کسان تھے۔ مگر یہاں ہم جیسے لوگ زندہ رہنے کے لیے پتھر کوٹ رہے ہیں‘‘۔
جودھ پور میں رہنے والے جگ داس نے مزیدکہا، ’’ہمارے لیے تقسیم ہند ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ ہندو اب بھی اپنےملک (بھارت) آنے کی کوشش میں ہیں اور جب وہ یہاں آتے ہیں، تو انہیں کچھ نہیں ملتا‘‘۔
برطانوی راج سے آزادی کے وقت اور پاکستان اور بھارت کے قیام کے وقت 15 ملین سے زائد افراد کو ہجرت کرنا پڑی، جس میں کم از کم ایک ملین مذہبی بنیادوں پر مارے گئے۔
اسی افراتفری میں ہندو اور سکھ نئے قائم ہوئے ملک پاکستان سے بھارت اور دوسری جانب مسلمان مخالف سمت میں روانہ ہوئے اور اس دوران تشدد کے غیرمعمولی واقعات پیش آئے۔
جگ داس کا خاندان تقسیم سے کچھ عرصہ قبل خشک سالی کے باعث پاکستانی علاقے میں منتقل ہوا تھا، مگر اس دوران پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد وہاں بس گیا۔ جگ داس کے مطابق، ’’تقسیم کے فوراﹰ بعد پاکستان میں ہندوؤں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایسا کوئی ایک بھی دن نہیں تھا، جو ہم نے سکون سے گزارا ہو۔ میں چاہتا تھا کہ اپنے دیگر ہندو بھائیوں کے ساتھ جا رہوں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی زیادہ تر آبادی صوبہ سندھ میں آباد ہے، جو چار گھنٹے کا ٹرین کا سفر کر کے راجستھان کے جودھ پور نامی صحرائی شہر پہنچتے ہیں۔
زبان، ثقافت اور خوراک سے ہم آہنگی سندھ کے ہندوؤں کو یہ خواب دکھاتی ہے کہ وہ راجستھان پہنچ کر بس جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں عام آبادی سے بہت دور خیمہ بستیاں قائم ہیں، جہاں حکام ان ہندوؤں کو شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
DW/News Desk
♦