ولید بابر ایڈووکیٹ
پانامہ کی گرد ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ میڈیاکو وزیراعظم آزادکشیمررا جہ فاروق حیدر کا بیان ہاتھ لگ گیا۔تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز راجہ فاروق حیدر کی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں جبکہ تجزیہ نگار گالی سے اپنا ضمیر زندہ ہونے اور وطن سے محبت کا ثبوت رہے رہے ہیں۔
دیکھا دیکھی چند مذہبی دانشور جن کا کاروبار آج کل ٹی وی شوز تک پہنچ چکا ہے ( وہی ٹی وی جو کسی دور میں مولویوں کے لیے حرام ہوا کرتا تھا ) نے بغیرکسی تحقیق اور قانونی مطالعے کے غداری کا مقدمہ چلانے کا فتویٰ صادر فرما دیا ہے۔جی آپ بالکل درست سمجھے ہیں وہی غداری کا مقدمہ جو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سابق آمرپرویز مشرف پر چلایا گیا تھا جو آج کل بیرون ملک سے آئین کا منہ چڑھا رہاہے ۔
اب جب کہ راجہ فاروق حیدر کے بیان سے گرد بہت زیادہ اور حقائق کا پردہ کم چاک ہوا ہے تو اس امر کی ضروت محسوس کی گئی ہے کہ استصواب رائے کے سنجیدہ مسئلہ پر روشنی ڈالی جائے اور اصل پہلو کو بھی اجاگر کیا جائے۔
استصواب رائے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آڑٹیکل1 میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ایسا حق ہے جو لوگوں کو سیاسی،معاشی،معاشرتی، ثقافتی زندگی گزارنے کا موقع مہیا کرتا ہے۔مزید سہولت کے لیے بلیک لاز ڈکشنری کا سہارا لیتے ہیں جس کہ مطابق استصواب رائے سے مرادیعنی جانشینی، حوالگی اور علیحدگی یا آزادی ہے۔اگر ریاست جموں و کشمیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد کشمیر کا پاکستان سے الحاق، ریاست کی ہندوستان کے حوالے یا مکمل آزادی ہے۔
جان کی امان پا ؤں اور اگر آپ کے جذبہ حب الوطنی کو کوئی زک نہ پہنچے تو عرض کرو ں کے ریاست جموں وکشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادنمبر 47 جو 13 اگست 1948میں منظور ہوئی اور جس میں رائے شماری کا تفصیلی طریقہ کار طے کیا گیا تھا اس میں واضح طور پر پاکستان کو جارح ملک تسلیم کرتے ہوئے فی الفور تمام افواج کے انخلا جبکہ ہندوستان کو آدھی افواج (امن کے لیے) رکھنے کا حق دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کشیمر پر آخری قراردادنمبر122جو کے 24 جنوری 1957 میں منظور کی گئی تھی اس میں بھی یہی اصول طے کیے گے تھے یاد رہے اس کے بعد کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر نہ آیا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں نے پچھلے ستر سالوں سے کشمیر کے موضوع کو لے کر اپنے عوام میں غلط بیانی کر کے ایک ایسابیانیہ تشکیل دیا ہے جو کہ معنی برخلاف حقائق ہے اور عوام اس بیانیے کے علاوہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اس لیے ریاستی بیانیہ کے علاوہ سب غداری تصور کی جاتی ہے۔اور استصواب رائے سے مراد صرف اور صرف الحاق پاکستان ہی تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اب تک کے بین القوامی سروے اور لوگوں کے عمومی رویہ سے خودمختار کشمیر کا رجحان زیادہ نمایاں ہے۔
دیکھا جائے تو کشمیر کے مسئلہ کو لے کر دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان اپنے لوگوں کا بدترین استحصال کر رہے ہیں ۔بجٹ کا کثیر حصہ دفاع کے نام پر خرچ کیا جا رہا ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام غربت،پسماندگی اور بدامنی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دونوں اطراف کے مٹھی بھر جنرل اور ان کی اولادیں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اور جب کبھی کشمیر کے مسئلہ پر کسی پیش رفت کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے ہر دو اطراف سے گولہ باری اور کشیدگی شروع ہو جاتی ہے جس کا بنیادی مقصد حالات کو جوں کا توں رکھنا مقصود ہوتا ہے تا کہ منافع بخش کاروبار جاری رہ سکے۔کسی نے یوں ہی تو نہ کہاتھا “جنگیں خوفناک حد تک منافع بخش ہوتی ہیں“۔
کچھ قوم پرست دوستوں کے نزدیک ریاست کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار صرف اورصرف انہیں حاصل ہے یہ موقف بھی درست نہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے میں تمام ریاستی افراد شریک ہوں گے اور ہم ان کے طبقاتی مفادات کی وابستگی کی بنیاد پر یہ اندازہ تو لگا سکتے ہیں کہ ان کا جھکاؤ کس جانب ہو گا مگر ان سے رائے شماری کا حق نہیں چھین سکتے۔
اب اگر راجہ فاروق حیدر کے بیان کو حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ حق فاروق حیدر کو اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ دونوں قابض ممالک میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں یا اپنے لیے علیحدگی و خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔پاکستانی عوام کو بھی ریاستی بیانیہ سے آزاد ہو کر کشمیری عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہو گا۔حتی کے اگر ریاست کے عوام ہندوستان کے ساتھ جانا پسند کریں یا خودمختاری کا راستہ اختیار کریں کھلے بندوں پاکستانی عوام کو ان کے فیصلے کا خیرمقدم کرنا ہو گا ۔بصورت دیگر پاکستان کے موقف سے سازش اور لالچ کا عنصر واضح نظر آئے گا اور کشمیر سے ہمدردی محض توسیع پسندی ہی تصور ہو گی۔
آخر میں غداری کا مقدمہ درج کرنے والے حضرات کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 1 پڑھ لیں۔ راجہ فاروق حیدر پاکستان کے شہری نہیں۔
حوالہ جات:۔
قراردادہائے اقوام متحدہ
Blacks law dictionary
کشیمر کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دینے کا سوال۔قربان علی
Divided state with a fragmented nations by prof Nazir Nazish.