چھبیس جون 1839 کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا لاہور میں انتقال ہوگیا ۔ اس کے انتقال کے بعد پنجاب میں سکھ اقتدار (1799-1849 )دس سال تک قائم رہا ۔ سیاسی خلفشار اور افتراق سے بھر پور ان دس سالوں میں لاہوردربار میں جاری اقتدار کی جنگ میں حکمران خاندان کی عورتوں نے جو موثر اور بھر پور کردار اداکیا وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے ۔ پنجابی عورتوں کے اس کردار کو آج نہ صر ف بھلا دیا گیا ہے بلکہ اسے سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔اس مختصر سے عرصے میں دو عورتیں پنجاب کی حکمران بنیں اور متعدد کو اپنے خاوندوں کی موت پر ستی ہونا پڑا ۔
حکمران بننے والی عورتوں میں مہارانی چند کور شامل تھی ۔ اس کا تعلق سکھوں کی کنہیا مسل سے تھا اور وہ رنجیت سنگھ کے سب سے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ کی بیوی تھی ۔ جب اس کے شوہر کو قید کیا گیا تو اس کو’ ’ملکہ مقدس ‘‘کا خطاب دے کر 2دسمبر 1840کو پنجاب کی مہارانی بنادیا گیا ۔وہ صرف ڈیڑھ ماہ تک پنجاب کی حکمران رہی ۔17جنوری 1841کو اسے زبردستی راج گدی سے علیحدہ کردیا گیاوراس کو نو لاکھ سالانہ آمدن کی جاگیر دے دی گئی ۔11جون 1842کو وہ پر اسرار حالات میں فوت ہوگئی اور اگلے دن اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں ۔بعض افراد کا کہنا ہے کہ اسے زہر دیا گیا تھا ۔
پنجاب کی دوسری حکمران عورت مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دسویں بیوی مہارانی جند کور تھی۔ جند کور اپنے شیر خوار بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی طرف سے 16ستمبر 1843سے 16 ستمبر 1846تک لاہور دربار کی حکمران رہی۔ جب پنجاب پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کر لیا تو مہارانی جندکور کو شیخوپورہ کے قلعہ میں قید کردیا گیا۔ اس نے یکم اگست 1863 کوکنسنگٹن لندن میں وفات پائی جہاں اسے انگریز حکمرانوں نے جلاوطن کر رکھاتھا ۔ پنجاب سے سکھ اقتدار کے خاتمے کے باوجود مہارانی جند کورایک ایسی قوت تھی جس سے انگریز حکمران خوف کھاتے تھے ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی تمام بیویاں خود اپنے طور پرمضبوط شخصیتوں کی مالک تھیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مہاراجہ کو چیلنج کرنے والی عورتیں پسند تھیں۔
مہاراجہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ’’میرے پاس ڈرپوک گھوڑوں اور عورتوں کے لئے وقت نہیں ہے ‘‘ 1799 میں مہاراجہ بننے سے تین سال قبل 1796 میں اس نے اپنی پہلی بیوی مہتاب کور سے شادی کی تھی ۔ان دنوں مہاراجہ اپنی طاقت ور ساس سردارنی سداکور سے جس نے اس کی زندگی میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا اورجو اس کی مشیر اعلیٰ بھی تھی بہت زیادہ متاثر تھا ۔ اس حقیقت نے کہ مہاراجہ کو اوائل عمری ہی میں دو طاقتور عورتوں سے پالا پڑا تھا شاید اسی وجہ سے وہ عورتوں کے بارے میں بہت زود حس واقع ہوا تھا ۔
مہاراجہ کی دوسری بیوی مہارانی داتر کور کا تعلق پتوکی کے نکئی خاندان سے تھا۔ اس کی تیسری بیوی امرتسر کی ایک خوبصورت سندھو جٹی مہارانی روپ کور تھی ۔وہ اس شرط پر کہ مہاراجہ لاہور سے ننگے پاؤں امرتسر آئے، اس کے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہوئی تھی ۔ روپ کور خوبصورت ہی اتنی تھی کہ مہاراجہ نے اس کی یہ شرط مان لی تھی ۔اس کی چوتھی بیوی مہارانی لکشمی کور بھی گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی سندھو جٹی تھی۔ مہاراجہ کی پانچویں بیوی کا تعلق کانگڑہ کے راجپوت خاندان سے تھا ۔ وہ انتہائی خوبصورت اور جذباتی عورت تھی۔
مہارانی مہتاب دیوی کانگڑہ کے حکمران سنسار چندر کی بیٹی تھی۔ اپنے خاوند کی موت پر اس بے نظیر عورت نے ستی ہونے کا فیصلہ کیا اور 27جون 1837کو وہ رنجیت سنگھ کے ساتھ زندہ جل کر راکھ ہوگئی ۔مہتاب کور کی چھوٹی بہن مہارانی راج کور مہاراجہ کی چھٹی بیوی تھی ۔ اس کا انتقال 1835میں ہوا تھا۔ مہاراجہ کی ساتویں بیوی چھچھر والی گجرانوالہ کے کور سنگھ کی بیٹی مہارانی رام دیوی تھی۔وہ 1838 میں راہی ملک عدم ہوئی ۔ اس کو شکایت تھی کہ مہاراجہ اس کی طرف مناسب توجہ نہیں دیتا ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ مہاراجہ نے یہ کہہ کر اس کا دل توڑ دیا تھا کہ’ تم مجھے بور کرتی ہو‘ ۔
مہاراجہ کی آٹھویں بیوی مشہورطوائف موراں تھی ۔موراں کا اصل نام گل بہار بیگم تھا اور وہ لاہور کی مسلمان طوائف تھی ۔ اندرون شاہ عالمی میں اس کا گھر ابھی تک موجود ہے ۔مہاراجہ کے دور حکومت میں اس کا شمار پنجاب کے موثر ترین افراد میں ہوتا تھا ۔ رنجیت سنگھ کے سکھ جرنیلوں نے اسے مجبور کیا کہ وہ موراں سے قطع تعلق کرلے لیکن مہاراجہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس کی نویں بیوی امرتسر کے کرم سنگھ کی بیٹی تھی جب کہ دسویں مہارانی جند کور تھی جو بعد ازاں لاہور دربار کی حکمران بنی ۔
دس باقاعدہ بیویوں کے علاوہ مہاراجہ طاقت ور پنجابی سرداروں کی بیواؤں سے شادی رچانے میں بھی تاخیر نہیں کرتا تھالیکن ایسی بیویاں مہارانی نہیں صرف رانی کے خطاب کی مستحق ہوتی تھیں۔اس کی رانیوں میں رانی رتن کور اور رانی دیا کور شامل تھیںیہ دونوں گجرات کے سردار صاحب سنگھ بھنگی کی بیوائیں تھیں۔اس نے ایک اور شادی امرتسر کے سردار جے سنگھ کی بیوہ بیٹی چند کور سے بھی کی۔ان کے علاوہ مہاراجہ نے اوربہت سی جوان اور خوبصورت عورتوں سے شادیاں کیں۔ان میں رانی مہتاب کور ،رانی ثمن کور ،رانی گلاب کور اور رانی بھوری شامل ہیں۔
مہاراجہ کی ان بہت سی بیویوں میں سے چار کو ایک خاص خانے میں رکھا جاسکتا ہے ۔یہ چاروں راجپوت تھیں اور یہ چاروں مہاراجہ کی لاش کے ساتھ ستی ہوئیں۔کانگڑہ کی شہزادی مہارانی مہتاب دیوی کے علاوہ رانی ہر دیوی جو گوروداس پور کی سلہریا راجپوت تھی ،رانی راج دیوی جس کا تعلق راجپوتوں کی پدما گوت سے تھا اور رانی دیونو جو جموں کے چب راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی تھی 27جون 1839 کو یہ چاروں مہاراجہ کی چتا پر بیٹھ کر ستی ہوگئی تھیں۔روایتی طور پر لاہور کی راجپو ت عورتیں اپنے خاوندوں کی موت پر ستی ہوجایا کرتی تھیں۔تاریخ میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ جب محمود غزنوی نے لاہور کو فتح کرکے اس کو آگ لگا دی تو لاہور کی راجپوت عورتوں نے شہر کی دیوار سے کود کر موت کو گلے لگا لیا تھا ۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بہت سے ایسے بچوں کو بھی اس کی اولاد تسلیم کرالیا جاتا تھا جن کا جنم اس وقت ہوا ہوتا جب وہ مرکز سے دور فوجی مہمات میں مصروف ہوتا تھا ۔مہاراجہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ایسے مشکوک بیٹوں کو یہ کہہ کر قبول کر لیا کرتا تھا کہ ’’واہ گورو ایہہ گیبی گولہ کتھوں آگیااے‘‘ ( یہ نادیدہ گٹھڑی کہاں سے آگئی ہے )۔ اس کے مشکوک بیٹوں میں شہزادہ ایشر سنگھ بہادر اور اس کاجڑواں بھائی مہاراجہ شیر سنگھ بہادر جو مہارانی مہتاب کور کے بیٹے تھے شامل ہیں ۔شہزادہ تارا سنگھ جسے مہارانی مہتاب کور کا بیٹا کہا جاتا ہے اصل میں مانکی نام کی ایک مسلمان لڑکی کا بیٹا تھا جو مائی سدا کور کی ملازم تھی ۔
لاہور دربار کے آخری دس سالوں میں حکمران خاندان کی عورتوں نے حصول اقتدار کی کشمکش میں جو کردار اداکیا اس کے بارے میں کو ئی زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔اگرچہ شادی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی لیکن ان عورتوں نے جو رول ادا کیا اس نے پنجاب جو برصغیر میں انگریزوں کے قبضے میں آنے والی آخری ریاست تھی کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔
ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ
♦
5 Comments